Author: editor

  • ایک پونچھی کی ڈوگرے سے گفتگو۔

    ایک پونچھی اور ڈوگرا آپس میں بات کر رہے تھے۔ با ت کرتے کرتے پونچھی ڈوگرے سے پوچھتا ہے۔
    بھائیا کیا آپ کبھی پونچھ گئے ہیں۔؟؟
    ڈوگرا دو ٹوک الفاظ میں جواب دیتا ہے۔سکٹریٹ ہمارے پاس، یونیورسٹیاں ہمارے پاس، کالج ہمارے پاس، اسپتال ہمارے پاس، راجدھانی ہمارے پاس، امتحان سنٹر ہمارے پاس ، ائیرپورٹ ہمارے پاس، ریلوےسٹیشن ہمارے پاس، سمارٹ سیٹی ہمارے پاس ، نائب وزیر اعلی ہمارے پاس،کیبنٹ منتری ہمارے پاس، ماڈرن بس سٹینڈ ہمارے پاس ، فلائی اورز ہمارے پاس، پبلک سروس کمیشن ہمارے پاس، سروس سلیکشن بورڈ ہمارے پاس۔۔۔۔۔ جب اتنی ساری سہولیات ہمارے پاس موجود ہیں تو میں کیا پو نچھ پتھروں کو دیکھنے جاؤں۔
    پونچھی شرم کے مارے سر جھکا لیتا ہے۔ اور یہ سوچنے لگتا ہے کے کون سی ایسی چیز ہے پونچھ میں جس کو دیکھنے کے لیے میں اس کو آمادہ کروں۔۔۔۔ ابھی وہ یہی سب کچھ سوچ رہا تھا کے ڈوگرا اسے سوال کرتا ہے۔
    بھائیا آپ بتاؤ ، آپ کے پونچھ کے چھ سات MLAs اور MLCs ہیں انہنوں نے وہاں کیا کیا کمال کئے ہیں۔۔؟
    پونچھی بڑے خوبصورت الفاظ میں جواب دیتا ہے جتنی چیزیں آپ نے گنوائی اتنا تو انہنوں نے نہیں کیا ہے۔ البتہ انہنوں نے ایک کام بڑی ہوشیاری سے کیا ہے۔
    ڈوگرا وہ کیا۔۔؟
    پونچھی۔۔۔ پہلے اپنے گاؤں میں اپنے بڑے بڑے اور خوبصورت بنگلے بنائے ہیں، اس کے بعد تحصیل سطع پہ ان کی کوٹھیاں، ضلعی سطع پہ ان کی کوٹھیاں ، صوبائی سطع پہ ان کی کوٹھیاں ، ریاستی سطع پہ ان کی کوٹھیاں، یہاں تک کے کچھ نے قومی راجدھانی دہلی میں بھی اپنی کوٹھیاں بنائی ہیں۔ کم سے کم ان کی ضلعی سطع پہ جو کوٹھیاں ہیں وہ دیکھنے تو آ جاؤ پونچھ۔
    ڈوگرا زور زور سے ہنستا اور کہتا ہے۔ ہمیشہ سادے ہی رہو گے۔ اور کہتا ہے پھر ملیں گے۔جاتے جاتے پونچھی ڈوگرے سے کہتا ہے۔ شاید ضلع پونچھ جموں صوبے کا سوتیلا بیٹا ہے ۔
    میں بظاہر خود جب ایک طالب علم کی حیثیت سے شعبہ سیاسییات سنٹرل یونیورسٹی کشمیر میں پڑھ رہا تھا تو میں نے بھی اپنے دوستوں، یاروں کو پونچھ آنے کی بہت باد دعوت دی۔ ان کا ایک ہی جواب ہوتا تھا کے آپ شادی کرو۔ شادی پہ ضرور آئیں گے۔ ورنہ کوئی ایسی چیز بتاؤ جو پونچھ میں دیکھنے لائق ہو۔ ہے کیا پونچھ میں جو ہم دیکھنے آئیں، کوئی یونیورسٹی ہے۔ کوئی آئی آئی ٹی انسٹیچوٹ ہے۔ کوئی میڈیکل کالج ہے۔ ۔۔۔کیا چیز ہے ایسی جسے ہمیں کچھ سیکھنے کو ملے۔ کچھ اس میں نیا دیکھنے کو ملے۔ورنہ پہاڑ اور جنگل ہم نے رام بن کے راستے بہت دیکھے ہیں۔ تو میرے پاس بھی ان کے سوالوں کا نہ کوئی جواب تھا اور نہ آج ہے۔
    یہ حقیقت ہے اگر ضلع پونچھ کو ہم ترقی کے اعتبار سے دیکھیں تو جموں کے دوسرے اضلاع کی بنسبت نہ کے برابر ہے۔ بڑے بڑے انسٹیچوٹ تو دور کی بات، یہاں کی سڑکیں پیدل چلنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔ جس کی مثال دور دراز گاؤں کو تو چھوڑو، پونچھ۔منڈی رابطہ سڑک جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ جہاں آج بھی اکیسویں صدی میں ۲۰ کلو میٹر سفر طے کرنے میں مسافر گاڑی دو گھنٹے لگاتی ہے۔ اگر گاؤں کی بات کی جائے تو جس جس کو ضلع پونچھ میں ترقی دیکھنی ہے وہ اڑائی آ کر دیکھ لے۔ منڈی۔ اڑائی رابطہ سڑک، جس کا کام ۱۹۷۲ ء میں شروع ہوا تھا۔ صرف آٹھ کلو میٹر سڑک آجتک تشنہ تکمیل ہے۔ اس سڑک پہ گاڑیاں چلانا تو دور کی بات، پیدل چلنے کے قابل بھی نہیں ہے۔ کرڑوں روپے اس سڑک کے نام پہ آج تک ہضم ہو گئے ہیں۔حال ہی میں دو کروڑ روپے اور گورنر انتظامیہ نے اس سڑک کے لیے مختص کیے ہیں۔ تا کے اس سڑک کو آمدورفت کے قابل بنایا جا سکے۔ ضلع ترقیاتی کمشنر کی ہدایات کے باوجود ، ٹھکیدار ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔ اور اسی دریا پہ اس سڑک کا کام جاری ہے۔ جو ۲۰۱۴ میں اسے اپنے ساتھ بہا لے گیا تھا۔

    ضلع پونچھ کے گردو نواع کے علاقوں میں غریب نوجوانو نے بڑی بڑی پوسٹوں پہ جانے کے خواب تو بہت پہلے چھوڑ دئے تھے لیکن وہ ایک معمولی چپراسی کی پوسٹ پر بھی نہیں جا سکتے۔ ایسا نہیں کے ان میں کوئی ٹیلنٹ کی کمی ہے۔ کمی ان کی غربت ہے۔ جو ان کے آڑے آ رہی ہے۔ قابل ہونے کے باوجود بھی وہ اس قابل نہیں ہوتے کے جموں یا سرینگر جا کر امتحان دیں۔
    آجکل جب سے نوکری حاصل کرنے کے لیے سرکار نے انٹرنس سسٹم کا آغاز شروع کیا ہے تو ایک معمولی سی پوسٹ کے لیے بھی امتحان دینا پڑتا ہے۔ لیکن ہماری بدنصیبی یہ ہے ان ساری پوسٹوں کے امتحانی مراکز ، جموں یا سرینگر ہوتے ہیں ۔ جسکا نتیجہ ہمارے غریب نوجوان قابل ہونے کے باوجود رہ جاتے ہیں۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کے صرف ایک پیپر کے لیے اگر کسی بچے کو جموں جانا ہے۔ تو پونچھ سے صرف جموں آنے جانے کا ایک ہزار، اگر وہ دو دن جموں رکتا ہے۔ تو کمرے کا کرایا دو ہزار، پھر وہ کھائے پئے گا بھی کچھ۔ کہنے کا مطلب اگر ایک پیپر دینے کے لیے نارمل نارمل پانچ ہزار روپے خرچ ہو تے ہیں ۔ تو ایک غریب باپ بچارہ اتنے پیسے کہاں سے لائے۔مجھے خود اپنی زندگی میں بہت سارے پیپر

    شعیب ملک
    آپ کا اپنا چھوٹا بھائی

  • Governor Malik working overtime to implement RSS agenda in the Jammu and Kashmir.Karra

    Governor Malik working overtime to implement RSS agenda in the Jammu and Kashmir.Karra

    Karra in a tweet said Governor Malik has been tasked to change political and geographical demography of the State.

  • ICT Based STC Organised by NITTTR Chandighar at nodal center University Polytechnic BGSBU, Rajouri.

    ICT Based STC Organised by NITTTR Chandighar at nodal center University Polytechnic BGSBU, Rajouri.

     

    SAJJAD IQBAL.

    RAJOURI : A five days long ICT (INFORMATION AND COMMUNICATION TECHNOLOGY) based Short term course on “science and technology for sustainable development” was organized at University Polytechnic BGSBU under the guidance and leadership of Honourable VC of BGSBU Prof. Javed Musarat, The Registrar BGSBU Dr. Ashfaq Ahmed Zari , Dean Academic Affairs Prof. Iqbal pravez and Principal University Polytechnic Er. Mubashar Malik Hassan.

    The programme commenced on Feb,04, 2019.The main purpose of organizing such ICT based programme is to promote the culture of high tech. teaching ,learning and research among the faculty. The department of University Polytechnic has been engaged in the process of organizing such ICT based programmes from time to time . It is very pertinent to mention here that University Polytechnic BGSBU rajouri is emerging as a center in the field of technical education by organizing such ICT based programmes.

    During the five days short term course a series of lectures were given by eminent scientist from CSIR chandigarh andCEERI pilani and professor from different IITs. Their main focus was the importance of science and technology for sustainable development of India. Experts who delivered lectures and talks included Dr. Poonam syal, Dr. V.K Bhat , Prof.Sanjay sharma Arch.Jit kumar Gupta Prof. Lini Methew , Prof. L.N sharma.

    The expert also cleared the doubts of the participants and also gave appropriate answers to questions being asked by participants at the end of each session during the short term course.
    Honourable V.C , BGSBU congratulate the organizing committee of the programme for making this programme a successfull event. Following were the members of organizing committee of this five days ICT based Short term course ;
    Mohd Rafiq (over all coordinator )
    Shivender Mehta (Nodal Officer)
    Anum Mukhtar (co-Nodal officer)
    Sahil Hamid
    Nadeem Hussain

  • Absconder nabbed in Kotranka

    Absconder nabbed in Kotranka

     


    Rajouri February 10:- Police on Sunday morning arrested an absconder who was evading his arrest in a case of rape and kidnapping from last eleven years.

    On the basis of information of District Special Branch, a team of police from Kandi police station headed by SHO Manzoor Kohli raided a location and suceeded in arresting one absconder wanted in case FIR No. 128/2007 under sections 363, 376 RPC of Police Station Kandi.

    Accused has been identified as Talib Hussain son of Mattu Khan resident of Barsala Tehsil koteranka aged 35 years.

    He was evading arrest since 2007.

  • Chenab Valley reel under darkness from last five days  Kashmir and Jammu Politicians never recognised Chenab Valley people problems : Malik

    Chenab Valley reel under darkness from last five days Kashmir and Jammu Politicians never recognised Chenab Valley people problems : Malik

     

    BHADERWAH : Advocate Mohd Majid Malik expressed dismay over the sluggish approach of administration in mitigating problems of people arising from recent snowfall in Chenab Valley of Jammu Province. Heavy snowfall in the Chenab Valley of Jammu Province has caused power breakdown in the region. Since last five days , there is no electricity in Bhaderwah , Doda, Kishtwar , Ramban and other parts of the region . Advocate Mohd Majid Malik from Bhaderwah said PDD department is trying to restore power supply but to no avail as ground level workers are with out infrastructure and equipments to replace the damage machinery , poles , wires , transformers and other important things . Advocate Mohd Majid Malik urged upon Governor Satya Pal Malik to look into the problem of Chenab Valley and keeping in view the problems of the area grant Hill Development Council status and division status to Chenab Valley and a separate department of Chenab Valley affairs should be established in Civil Secteriat Jammu and Kashmir. Malik while expressing disappointment over the slothful approach of the present Governor administration in dealing with the problems arising after recent snowfall in Chenab Valley said, “People’s expectations of what administration should be doing after snowfall have been met with disappointment. He also criticised the Politicans of Chenab Valley for their silence on the issue and also appeal to people to teach them lesson by isolating .Malik said no one in Kashmir and Jammu recognised the problems and miseries of Chenab Valley people it is the right of Chenab Valley people to demand Hill Development Council on the pattern of Ladakh and separate revenue division .Malik said if political leaders of Chenab Valley not clear their stand on separate division to Chenab Valley then people of Chenab Valley will definitely teach them a lesson in the interest of their future generation .

  • پونچھ اور جموں،، سوتیلا بیٹا اور سوتیلا سلوک

    پونچھ اور جموں،، سوتیلا بیٹا اور سوتیلا سلوک

      

    ایک پونچھی اور ڈوگرا آپس میں بات کر رہے تھے۔ با ت کرتے کرتے پونچھی ڈوگرے سے پوچھتا ہے۔
    بھائیا کیا آپ کبھی پونچھ گئے ہیں۔؟؟
    ڈوگرا دو ٹوک الفاظ میں جواب دیتا ہے۔سکٹریٹ ہمارے پاس، یونیورسٹیاں ہمارے پاس، کالج ہمارے پاس، اسپتال ہمارے پاس، راجدھانی ہمارے پاس، امتحان سنٹر ہمارے پاس ، ائیرپورٹ ہمارے پاس، ریلوےسٹیشن ہمارے پاس، سمارٹ سیٹی ہمارے پاس ، نائب وزیر اعلی ہمارے پاس،کیبنٹ منتری ہمارے پاس، ماڈرن بس سٹینڈ ہمارے پاس ، فلائی اورز ہمارے پاس، پبلک سروس کمیشن ہمارے پاس، سروس سلیکشن بورڈ ہمارے پاس۔۔۔۔۔ جب اتنی ساری سہولیات ہمارے پاس موجود ہیں تو میں کیا پو نچھ پتھروں کو دیکھنے جاؤں۔
    پونچھی شرم کے مارے سر جھکا لیتا ہے۔ اور یہ سوچنے لگتا ہے کے کون سی ایسی چیز ہے پونچھ میں جس کو دیکھنے کے لیے میں اس کو آمادہ کروں۔۔۔۔ ابھی وہ یہی سب کچھ سوچ رہا تھا کے ڈوگرا اسے سوال کرتا ہے۔
    بھائیا آپ بتاؤ ، آپ کے پونچھ کے چھ سات MLAs اور MLCs ہیں انہنوں نے وہاں کیا کیا کمال کئے ہیں۔۔؟
    پونچھی بڑے خوبصورت الفاظ میں جواب دیتا ہے جتنی چیزیں آپ نے گنوائی اتنا تو انہنوں نے نہیں کیا ہے۔ البتہ انہنوں نے ایک کام بڑی ہوشیاری سے کیا ہے۔
    ڈوگرا وہ کیا۔۔؟
    پونچھی۔۔۔ پہلے اپنے گاؤں میں اپنے بڑے بڑے اور خوبصورت بنگلے بنائے ہیں، اس کے بعد تحصیل سطع پہ ان کی کوٹھیاں، ضلعی سطع پہ ان کی کوٹھیاں ، صوبائی سطع پہ ان کی کوٹھیاں ، ریاستی سطع پہ ان کی کوٹھیاں، یہاں تک کے کچھ نے قومی راجدھانی دہلی میں بھی اپنی کوٹھیاں بنائی ہیں۔ کم سے کم ان کی ضلعی سطع پہ جو کوٹھیاں ہیں وہ دیکھنے تو آ جاؤ پونچھ۔
    ڈوگرا زور زور سے ہنستا اور کہتا ہے۔ ہمیشہ سادے ہی رہو گے۔ اور کہتا ہے پھر ملیں گے۔جاتے جاتے پونچھی ڈوگرے سے کہتا ہے۔ شاید ضلع پونچھ جموں صوبے کا سوتیلا بیٹا ہے ۔
    میں بظاہر خود جب ایک طالب علم کی حیثیت سے شعبہ سیاسییات سنٹرل یونیورسٹی کشمیر میں پڑھ رہا تھا تو میں نے بھی اپنے دوستوں، یاروں کو پونچھ آنے کی بہت باد دعوت دی۔ ان کا ایک ہی جواب ہوتا تھا کے آپ شادی کرو۔ شادی پہ ضرور آئیں گے۔ ورنہ کوئی ایسی چیز بتاؤ جو پونچھ میں دیکھنے لائق ہو۔ ہے کیا پونچھ میں جو ہم دیکھنے آئیں، کوئی یونیورسٹی ہے۔ کوئی آئی آئی ٹی انسٹیچوٹ ہے۔ کوئی میڈیکل کالج ہے۔ ۔۔۔کیا چیز ہے ایسی جسے ہمیں کچھ سیکھنے کو ملے۔ کچھ اس میں نیا دیکھنے کو ملے۔ورنہ پہاڑ اور جنگل ہم نے رام بن کے راستے بہت دیکھے ہیں۔ تو میرے پاس بھی ان کے سوالوں کا نہ کوئی جواب تھا اور نہ آج ہے۔
    یہ حقیقت ہے اگر ضلع پونچھ کو ہم ترقی کے اعتبار سے دیکھیں تو جموں کے دوسرے اضلاع کی بنسبت نہ کے برابر ہے۔ بڑے بڑے انسٹیچوٹ تو دور کی بات، یہاں کی سڑکیں پیدل چلنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔ جس کی مثال دور دراز گاؤں کو تو چھوڑو، پونچھ۔منڈی رابطہ سڑک جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ جہاں آج بھی اکیسویں صدی میں ۲۰ کلو میٹر سفر طے کرنے میں مسافر گاڑی دو گھنٹے لگاتی ہے۔ اگر گاؤں کی بات کی جائے تو جس جس کو ضلع پونچھ میں ترقی دیکھنی ہے وہ اڑائی آ کر دیکھ لے۔ منڈی۔ اڑائی رابطہ سڑک، جس کا کام ۱۹۷۲ ء میں شروع ہوا تھا۔ صرف آٹھ کلو میٹر سڑک آجتک تشنہ تکمیل ہے۔ اس سڑک پہ گاڑیاں چلانا تو دور کی بات، پیدل چلنے کے قابل بھی نہیں ہے۔ کرڑوں روپے اس سڑک کے نام پہ آج تک ہضم ہو گئے ہیں۔حال ہی میں دو کروڑ روپے اور گورنر انتظامیہ نے اس سڑک کے لیے مختص کیے ہیں۔ تا کے اس سڑک کو آمدورفت کے قابل بنایا جا سکے۔ ضلع ترقیاتی کمشنر کی ہدایات کے باوجود ، ٹھکیدار ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔ اور اسی دریا پہ اس سڑک کا کام جاری ہے۔ جو ۲۰۱۴ میں اسے اپنے ساتھ بہا لے گیا تھا۔

    ضلع پونچھ کے گردو نواع کے علاقوں میں غریب نوجوانو نے بڑی بڑی پوسٹوں پہ جانے کے خواب تو بہت پہلے چھوڑ دئے تھے لیکن وہ ایک معمولی چپراسی کی پوسٹ پر بھی نہیں جا سکتے۔ ایسا نہیں کے ان میں کوئی ٹیلنٹ کی کمی ہے۔ کمی ان کی غربت ہے۔ جو ان کے آڑے آ رہی ہے۔ قابل ہونے کے باوجود بھی وہ اس قابل نہیں ہوتے کے جموں یا سرینگر جا کر امتحان دیں۔
    آجکل جب سے نوکری حاصل کرنے کے لیے سرکار نے انٹرنس سسٹم کا آغاز شروع کیا ہے تو ایک معمولی سی پوسٹ کے لیے بھی امتحان دینا پڑتا ہے۔ لیکن ہماری بدنصیبی یہ ہے ان ساری پوسٹوں کے امتحانی مراکز ، جموں یا سرینگر ہوتے ہیں ۔ جسکا نتیجہ ہمارے غریب نوجوان قابل ہونے کے باوجود رہ جاتے ہیں۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کے صرف ایک پیپر کے لیے اگر کسی بچے کو جموں جانا ہے۔ تو پونچھ سے صرف جموں آنے جانے کا ایک ہزار، اگر وہ دو دن جموں رکتا ہے۔ تو کمرے کا کرایا دو ہزار، پھر وہ کھائے پئے گا بھی کچھ۔ کہنے کا مطلب اگر ایک پیپر دینے کے لیے نارمل نارمل پانچ ہزار روپے خرچ ہو تے ہیں ۔ تو ایک غریب باپ بچارہ اتنے پیسے کہاں سے لائے۔مجھے خود اپنی زندگی میں بہت سارے پیپر ، تیاری کرنے کے باوجود اس وجہ سے چھوڑنے پڑے ۔کیوں کے میرے پاس جموں یا سرینگر جانے کے لیے خرچہ نہیں ہوتا تھا۔ اور آج بھی میرے ایسے بہت سارے دوست ہیں جو محض خرچہ نہ ہونے کی وجہ سے امتحان چھوڑ رہے ہیں۔
    اگر پبلک سروس کمیشن ارو سروس سلیکشن بورڈ، اننت ناگ میں، بارہمولہ میں، کھٹوعہ میں، ڈوڈہ میں، کشتواڑ میں، ادھمپور میں، جو جموں اور سرینگر سے صرف پچاس کلو میٹر کی کم دوری پہ واقع ہیں۔وہاں امتحانی مراکز قائم کرتا ہے۔ تو ۳۰۰ کلو میٹر دوری والے پونچھ میں کیوں کوئی امتحانی مراکز قائم نہیں کیا جاتا۔؟؟

    یہ ساری حقیقت۔ یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کے پونچھ واقع ہی میں جموں صوبے کا سوتیلا بیٹا ہے۔

    خورشید تانترے۔۔۔ طالب علم شعبہ سیاسییات۔

  • Masood chowdhary Advocate Senior Congress leader،Dr Shehzad Malik VC Sain Nath University ،Nadeem Ahmed Mir Congress Leader and Sayed Shadab Shah Social Activist and Pahari Youth leader Demanded Division Status for Regions Peer Punjaal and Chinab Valley۔

    Masood chowdhary Advocate Senior Congress leader،Dr Shehzad Malik VC Sain Nath University ،Nadeem Ahmed Mir Congress Leader and Sayed Shadab Shah Social Activist and Pahari Youth leader Demanded Division Status for Regions Peer Punjaal and Chinab Valley۔

     

    Rajouri February 09:– Separate status for Pir Panjal range demanded by Adv Masood Choudhary

    He urged all the political leaders of Peer Panjal to get united and take a lesson from the people, political leaders and civil society members of Ladakh.He welcomed the decision of Governor to give Ladakh the status of a separate division and expressed pain over the neglect of Peer Panjal. “The decision of giving a separate division status should have been collectively taken for Pir Panjal regions too along with Ladakh if it was meant for the greater good of people as people of Peer Panjal are fighting for the same from the last many years ,’’ he said .
    The people of Pir Panjal region suffered a lot in Indo Pak war and is the most neglected and backward region of jandk and he urged upon Governor Administration to take this decision at the earliest as this region have a vast area and deserve Division status. Masood chowdhary also added that discrimination with Pir Panjal region will not be tolerated these people are peace loving and living peacefully and Governor Administration is forcing people to agitate .
    Ladakh is a far-flung area and already had a hill development council at a place in Leh and Kargil and now making it a separate division is a big deal and he whole heartedly welcomed it.
    However, he wished that the same decision would have been taken for pir panjal regions as well keeping in view the problems of the region.
    “The Pir Panjal areas are also backward and underdeveloped with a huge population so pir panjal areas should also be given the status of a separate division”,he said.

    Masood chowdhary also urged upon the political workers to force their leaders for the same demand and get united under one banner for this demand leaving all their differences aside.
    [09/02, 5:55 PM] EDITOR GNS GROUPS www.gnsrajouri.com: Dr Shazad retierates demand for speial status for Pir Panchal Region

                 Dr Shehzad Malik

    While congratulating the people of Ladakh region and honourable governor for giving divisional status to Ladakh, Dr. Shazad Malik, the renowned educationist from Poonch today reiterated his earlier demand of special status for Rajouri and Poonch districts. Dr. Shazad said it is a welcome step hat understanding the pain of the people of Ladakh region the governor administration gave the region a divisional status similarly people of Rajouri and Poonch for very long demanding for either divisional status or autonomous Pir Panchal council for equi- distribution of resources. He said it is unfortunate that for over 70 years, the ruling political parties did not pay any heed towards the developmental needs of the people of these two districts and the roads of these districts reveal everything. Dr. Shazad said people of Rajouri and Poonch are peace loving people and don’t want to come on roads for their demands therefore it is requested to the state government and the union government to consider this genuine demand of the people of the Pir panchal area and do the needful.

               Sayeed Shadab Shah

    Sayed Shadab Shah Shah dema divisional status to pirpanjal range.
    He said government of Jammu & Kashmir has carved out the third division of the state by granting Divisional status to Ladakh. This is , of course a genuine decision keeping in view the tough topography, difficult life conditions and the geographical inaccessibilities. Ladakh has survived through the hardest of its times right since the remote past. Granting its due right is quite in the fitness of justice . The wakeful minds must appreciate this gift to Ladakh.

    He said the state has other more difficult and suffering topographies and populace equalling in the pains and agonies right since the advent of independence. Pirpanjal region comes first next to Ladakh. The unfortunate region has served a battle ground for all the indo- pak battles, has offered to but cut to pieces with a collosal loss of men and material right since the time of partiton . The long bout of disturbance has squeezed whatever little was left in the name of life in it.

    A war battered region , as it is, there must be no doubt in the fact that this region deserved an equal sympathy and healing touch.

    He said Ignoring the region from its right of a divisional status has dismayed its denizens and left them awe- struck.

    Shadab said that the Government must announce Pirpanjal as the fourth region of the state to keep the scale of justice even.
    [09/02, 5:58 PM] EDITOR GNS GROUPS www.gnsrajouri.com: Separate division status for Chenab valley, Pir Panchal demaded۔

    Nadeem Mir

    Nadeem Ahmed Mir urged political workers to force their leaders to make it election menesfesto

    Rajouri: Nadeem Ahmed Mir State Secretary Pardesh Youth Congress urged the all political leaders of Chenab Valley and Peer Panjal to be united and take a lesson from people of Ladakh and political leaders and civil society members and welcomed the decision of Governor to give Ladakh the status of a separate division and expressed pain over the neglect of Peer Panjal. “The decision of giving a separate division status should have been collectively taken for Chenab valley and Pir Panchal regions too along with Ladakh if it was meant for the greater good of people as people of Peer Panjal are fighting for the same from the last many years ,’’ Mir said .
    He said Ladakh is a far-flung area and already had a hill development council at a place in Leh and Kargil and now making it a separate division is a big deal and he wholeheartedly welcomes it and same formula shall be applied for chenab and Peer panjal .
    However, he wished that the same decision was taken for the other two regions as well keeping in the view the problems and area .
    “The Pir Panjal and Chenab valley areas are also backward and underdeveloped with a huge population so both these areas should also be given the status of a separate division,”

    .He urged upon all party leaders from Chenab Valley and Peer oanjal to United and raise the issue and also made it election manifesto. He also urged upon the political workers to force their leaders for the same demand .

  • شہزاد ملک نے لداخ کے لوگوں کو دی مبارک باد   اور ساتھ میں انھوں نے ریاستی گورنر انتظامیہ کو بھی مبارک باد دیتے ہوئے خطہ پیر پنچال کی تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈران کو تنقید کا نشانہ بناتے

    شہزاد ملک نے لداخ کے لوگوں کو دی مبارک باد  اور ساتھ میں انھوں نے ریاستی گورنر انتظامیہ کو بھی مبارک باد دیتے ہوئے خطہ پیر پنچال کی تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈران کو تنقید کا نشانہ بناتے

    طارق خان انقلابی

    مینڈھر//سائیں ناتھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر شہزاد ملک نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے لداخ کے لوگوں کو مبارک باد پیش کی اور ساتھ میں انھوں نے ریاستی گورنر انتظامیہ کو بھی مبارک باد دیتے ہوئے خطہ پیر پنچال کی تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈران کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ہمارے کسی بھی لیڈر نے اکھٹے ہو کر کوئی مانگ نہیں کی چاہے وہ صوبہ کا درجہ تھا یا لائن آف کنٹرول پر بسنے والے لوگوں کا کوئی معاملہ ہو۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے نوجوان بے روزگار ہیں لیکن ان کیلئے بھی کبھی بھی سیاسی جماعتوں کے لیڈران نے اکھٹے ہو کر مانگ نہیں کی کہ ان کو نوکریاں دی جائیں ۔انھوں نے لداخ کے لیڈران کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ مجھے بڑی خوشی ہے کہ وہ تمام لیڈران اکھٹے ہو کر کسی چیز کی مانگ کرتے ہیں اپنا حق حاصل کر کے چھوڑتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ خطہ پیر پنچال کے لیڈران کو بھی لداخ کے لیڈران سے سبق سیکھنا چاہیے ۔ماہر تعلیم ڈاکٹر شہزاد ملک نے ریاستی گورنر سے کہا کہ خطہ پیر پنچال کو جلد از جلد پہاڑی تریقاتی کونسل یا علاحدہ ڈویژن کا درجہ دیا جائے۔کیونکہ خطہ پیر پنچال کے لوگوں کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے کیونکہ گذشتہ کئی برسوں سے گوجر اور پہاڑی کے نام پر ووٹوں کی تقسیم ہوئی ہے۔تاہم گورنر انتظامیہ کو پیر پنچال کو پہاڑی ترقیاتی کونسل کی مانگ کو پورا کرنا چاہیے کیونکہ یہاں کے لوگ قدیم طرز پر زندگی گزار رہے ہیں اور گورنر خود حالات دے کر پہاڑی ترقیاتی کونسل کی مانگ کا خود کی احساس ہو جائے گا۔کیونکہ پہاڑی تریقاتی کونسل کا مطالبہ جائز مانگ ہے جس سے خطہ کی ترقی ہو سکے گی۔ان کا کہنا تھا کہ ہر حکومت نے خطہ پیر پنچال کی مانگ کو نظر انداز کیا اور خطے کے ساتھ ہمیشہ امتیازی سلوک رکھا۔ان کا کہنا تھا کہ راجوری پونچھ کی دہرینہ مانگ پوری کی جائے اور پہاڑی ترقیاتی کونسل و علاحدہ ڈویژن کا درجہ دیا جائے۔انھوں نے تمام نوجوانوں سے اپیل کی ہے کہ تمام سیاسی پارٹیوں اور ذات پات سے باہر آ کر خطہ پیر پنچال کی ترقی کیلئے پہاڑی ترقیاتی کونسل یا علحدہ ڈویژن کی مانگ کرتے ہوئے اجیٹیشن شروع کرنے کا انتباہ دیا ہے

  •                                                      پیر  پنجال کا تشخص  بحال کرنے کے لیے اور ترقی پذیر بنانے کے لیے نیشنل  کا انفرنس علاقہ کی مانگ کو اجینڈے میں شامل کرے۔  

                                                        پیر  پنجال کا تشخص بحال کرنے کے لیے اور ترقی پذیر بنانے کے لیے نیشنل کا انفرنس علاقہ کی مانگ کو اجینڈے میں شامل کرے۔  

    تاریخی ریاست پونچھ جو دنیا کے نقشہ پر ہندوستان کیآزادی سے قبل موجود ہوا کرتی تھی ۔ اس ریاست کو آزادی کے بعد سرحدوں کے آرپار بانٹ دیے جانے کے بعد یہ خطہ اپنا ذاتی تشخص کھو گیا ہے اسے عرصہ چھ دشک تک راجوری پونچھ سرحدی علاقہ کہا جاتا تھا ۔ جب کے اس علاقہ کی آبادی پندرہ لاکھ کے قریب ہے ۔ اس علاقہ کے دو ضلع ہیں اور سات اسمبلی نشستیں ہیں۔ نیشنل کانفرنس کے نائب صدر جناب عمر عبداللہ نے عوام کو یقین دلایا ہے کہ حکومت میں آنے کے بعد پیر پنچال الگ صوبہ تسلیم کیا جائے گا۔ ان کے اس بیان نے پیر پنجال کی عوام کے دلوں کو جیت لیا ہے۔

    پیر پنجال ریجنل فورم جس کا قیام 2009 میں ہو اس کی دیرانہ مانگ رہی ہے کہ پیر پنجال کے ذاتی تشخص کو بحال کیا جائے پیر پنجال کی عوام کو پسماندگی سے نکالنے کے لیے یہ واحد راستہ ہے۔ آج پیر پنجال ریجنل فورم کی مانگ کو دس سال کے بعد کسی سیاسی جماعت اور نیشنل کانفرنس جیسی تنظیم نے تسلیم کیا ہے اور حکومت میں آنے کے بعد اسے عملی جامعہ پہنانے کا وعدہ کیا ہے۔

    ہماری ذیل درج نکات جناب عمر عبداللہ صاحب سے گزارش ہے کہ انہیں اپنے منشور میں شائع کیا جائے۔

    1 پیر پنجال کو الگ صوبہ تسلیم کیا جائے الگ ڈویزنل کمشنر اور الگ انسپکٹر جیزل پولیس کے بھی قائم کیے جائی۔

    2 پیر پنجال کی عوام کی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے اور عوام کو ریاست کی مندہ علاقہ کی طرح ترقی کی راہ پر گمزن کرنے کے لیے پیر پنچال ہل ترقیاتی کونسل کا درجہ دیا جائے جو پیر پنچال کی ترقی کا واحد حل ہے۔

    3 شعبہ تعلیم میں پیر پنچال کی ریاست اور ملک کے اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ساتھ مقابلہ کے دور دورہ میں تعلیم کے مواقع فراہم کرنے کے لیے الگ پیر پنچال سینٹرل یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جائے۔

    4پیر پنچال کی عوام کی آواز جبکہ کے یہاں ریاست کی ایک بڑی آبادی رہائش پذیر ہے اس کے مسائل اور ان لوگوں کی آواز کو دنیا کے سامنے لانے کے لیے الگ سے پیر پنچال لوک سبھا نشست مقرر کی جائے۔

    5 پیر پنچال کے ملازمین جو ریاست کے دوسرے مشکل گزار پہاڑی اور برفیلے علاقہ کی مانند ہے جو برسات اور برفباری سے باقی ملک کے کٹ جاتا ہے ان کو بھی ریاست کے دوسرے علاقوں کی طرح کمپنسنٹری الائنس دیے جائے تاکہ یہ لوگ اس علاقہ میں عوام کہ بہتر خدمات انجام دے سکیں۔

    6 رواں دور کو دیکھتے ہوئے پیر پنچال کی اوائل نسل کو کسمپرسی کو دیکھتے ہوئے یہاں کی ایک دیرانہ مانگ ہے کہ منشیات کی روک تھام کے لیے منظم اقدام کیے جائیں جس میں تمام سہولیت سے لیس ڈیاڈیکشن سنٹر راجوری پونچھ میں ہر قصبہ میں قائم کیے جانے چاہئے تاکہ ہماری نسل نشے کے لت سے باہر آسکے۔

    جناب عمر عبداللہ صاحب سے گزارش ہے کہ پیر پنچال جو ریاست کا سب سے پسماندہ علاقہ ہے اس کی ترقی کا واحد نسخہ ان مانگ میں ہے اپنے آنے والے انتخابی منشور میں درج کریں اور حکومت میں آنے کے بعد انہیں عملی جامعہ پہنایابجائےجس سے عوام پیر پنچال کے ساتھ انصاف ہو سکے گا۔
    لیاقت چودھری
    صدر پیر پنچال ریجنل فورم
    liaqatchoudhary548@gmail.com 9419170548

  • Grant Divisional Status to Pir Panjal and Chenab regions: Guftar Ahmed Chowdhary

    Grant Divisional Status to Pir Panjal and Chenab regions: Guftar Ahmed Chowdhary

    SAJJAD IQBAL.

    KOTRANKA : Social Activist Guftar Ahmed Chowdhary demanded creation of two more administrative and revenue divisions for Pir Panjal and Chenab regions of Jammu and Kashmir that consists of most remotest and hilly areas of the state. In a press statement issued here, Guftar Ahmed said that both regions of Pir Panjal and Chenab Valley that consist of Rajouri, Poonch, Kishtwar, Ramban, Doda are distinct from Jammu and are forcibly subjugated under Jammu division that itself consists of three districts. He further added that “whatever is sanctioned for Jammu province is confined to the districts of Jammu or Samba while majority of the region is left ignored”

    All major institutions like AIIMS, IIT, SKAUST, Regional Univeristy, Central University, Railways etc are located in Jammu proper while majority population of Pir Panjal and Chenab is deprived of all facilities.

    Guftar further added that “Central Governments have earned billions by using water from Chenab and people of Pir Panjal dwelling along LOC are left on the mercy of God, and despite of it government is not paying any attention towards these regions which is quite unfortunate”.

    Guftar Ahmed appealed all socio-political leaders, students, religious clerics, employees of both the region to launch a movement for creation of two separate administrative divisions for Pir Panjal and Chenab which would result in overall development of the ignored lot of the state.