Author: admin

  • J&K Weather Update : Isolated heavy rainfall/snowfall

    J&K Weather Update : Isolated heavy rainfall/snowfall

    Weather Update : Isolated heavy rainfall/snowfall is likely over J&K

    Thunderstorm accompanied with lightning hail & gusty wind (speed reaching 30-40 kmph or more) at isolated places is very likely over Western Himalayan region and plains of northwest India during 11th to 13th March.

    Isolated heavy rainfall/snowfall is likely over J & K, Ladakh, Gilgit-Baltistan on 11th & 12th March,

    HP on 12th and 13th March.

    Isolated heavy rainfall is likely over Uttarakhand on 13th March.

  • کشمیری زبان و ثقافت پر ’ہندوتوا یلغار‘

    کشمیری زبان و ثقافت پر ’ہندوتوا یلغار‘

    افتخار گیلانی

    بھارت میں وزیر اعظم نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے سے قبل یا اس کے فوراً بعد کشمیر، بھارتی مسلمانوں اور پاکستان کے حوالے سے جو خدشات ظاہر کیے جا رہے تھے ، ایک ایک کرکے وہ سبھی درست ثابت ہو رہے ہیں۔ غالباً۲۰۱۴ء اور۲۰۱۵ء میں جب ان خطرات سے آگاہ کرانے کے لیے میں نے مودی کا کشمیر روڑ میپ ، کشمیر میں ڈوگرہ راج کی واپسی وغیرہ جیسے موضوعات پرکالم لکھے توکئی افراد نے ’قنوطیت پسندی‘ کا خطاب دے کر مجھے یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ کانگریس کی کمزور اور پس وپیش میں مبتلا سیکولر حکومت کے برعکس، بھارت میں ایک سخت گیر اور خبط عظمت کے شکار حکمران کو رام کرنا یا شیشے میں اتارنا زیادہ آسان ہوگا ۔ اس سلسلے میں بار بار ۱۹۷۷ء سے ۱۹۷۹ءکی مرارجی ڈیسائی کی جنتا پارٹی حکومت اور پھر۱۹۹۸ء سے۲۰۰۴ء تک بھارتیہ جنتا پارٹی کی زیر قیادت اٹل بہاری واجپائی کے دور کی یاد دلائی جاتی تھی۔

    لیکن جب ’ڈوگرہ راج کی واپسی‘ مضمون لکھا تو آزاد کشمیرسے تعلق رکھنے والے چند دانش ور وں نے تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان مضامین کی بنیاد خیالی گھوڑے یا کوئی غیبی اشارہ نہ تھا، بلکہ مختلف لیڈروں کی بریفنگ پر مبنی معلومات ہی تھیں۔

    مجھے یاد ہے ۲۰۱۴ء کے عام انتخابات سے قبل جب موجودہ وزیر داخلہ امیت شا کو اہم انتخابی صوبہ اتر پردیش کا انچارج بنایا گیا ، تو راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر آنجہانی ارون جیٹلی نے قومی میڈیا کے کچھ چنیدہ صحافیوں اور دہلی کے دیگر عمائدین سے ان کو متعارف کروانے اور ملاقات کے لیے اپنی رہایش گاہ پر ضیافت کا اہتمام کیا تھا۔ اس سے قبل امیت شا گجرات صوبہ کے وزیرداخلہ کی حیثیت سے فسادات، سہراب الدین اور ان کی اہلیہ کا پولیس انکاونٹر کروانے اور اس کی پاداش میں جیل کی ہوا کھانے اور پھر عدالت کی طرف سے تڑی پار ہونے کے لیے ہی مشہور تھے۔ اس تقریب میں وہ ہندستان ٹائمز کے ایک ایڈیٹر ونود شرما پر خوب برس پڑے کہ ’’تم ہر وقت ان کے خلاف ہی کیوں لکھتے رہتے ہو‘‘۔

    ان کی گفتگو سے اندازہ ہوگیا تھا کہ مودی کا دور اقتدار، واجپائی حکومت سے مختلف ہوگا۔ واجپائی حکومت میں جارج فرنانڈیز ، جسونت سنگھ اور دیگر اتحادیوں کی شکل میں جو ایک طرح کا کشن تھا، اس کی عدم موجودگی میں ہندو انتہاپسندو ں کی مربی تنظیم آرایس ایس اپنے ایجنڈے کو لاگو کرنے میں اب کوئی پس و پیش نہیں کرے گی۔ انھوں نے گفتگو میں واضح کیا کہ ’’اکثریت ملتے ہی وہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی آئین کی دفعہ ۳۷۰کو پہلی فرصت میں ختم کر واکے ہی دم لیں گے‘‘۔ ان کا ایک اور رونا تھا کہ جموں و کشمیر اسمبلی میں وادی کشمیر کو عددی برتری حاصل ہے۔ اس لیے اسمبلی حلقوں کی حد بندی کچھ اس طرح کروانے کی ضرورت ہے کہ جموں کے ہندو علاقوں کی سیٹیں بڑھ جائیں، جس سے ان کے مطابق سیاسی طور پر کشمیرپر لگام ڈالی جاسکے۔ اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی مسلمانوں کو بھی سوچ بدلنی پڑے گی۔

    اس سے قبل انڈین ایکسپریس سے وابستہ ایک رپورٹر نے مشرقی اتر پردیش میں امیت شا کے دورے کے دوران کارکنوں کے ساتھ ان کی ایک میٹنگ میں رسائی حاصل کی تھی۔ جہاں وہ ان کو بتا رہے تھے کہ ’’مظفر نگر اور اس کے نواح میں ہوئے فسادات کا کس طرح بھر پور فائدہ اٹھاکر ہندو ووٹروں کو بی جے پی کے حق میں لام بند کرایا جائے‘‘۔ بقول رپورٹر انیرودھ گھوشال، وہ کارکنوں کو خوب کھر ی کھری سنا رہے تھے، کہ مظفر نگر فسادات کا دائرہ دیگر ضلعوں تک کیوں نہیں بڑھایا گیا، تاکہ مزید انتخابی فائدہ حاصل ہوجاتا۔

    جیٹلی کے گھر پر ہوئی اس ملاقات میں ان کے جس ارادے نے سب سے زیادہ میرے ذہن میں خطرے کی گھنٹی بجائی وہ ان کایہ بیان تھا کہ ’’بھارت کی سبھی زبانوں کو زندہ رہنے کا حق تو ہے ، مگر ان کا رسم الخط ہندی یا دیوناگری میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’اس سے بھارت کو مزید مضبوط بنانے میں مدد ملے گی۔ کشمیری زبان کا خاص طور پر ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’کشمیری مسلمانوں کی منہ بھرائی کرکے اس زبان کو واپس شاردا یا دیوناگری اسکرپٹ میں لانے میں پچھلی حکومتیں لیت و لعل سے کا م لیتی آرہی ہیں‘‘۔
    ۲۶جنوری کو بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقعے پر حکومت کی طرف سے اخباروں کو جاری ایک اشتہار پر نظر پڑی ۔ یہ اشتہار بھارتی آئین میں تسلیم سبھی۲۲ شیڈولڈ زبانوں میں شائع کیا گیا تھا۔ بغور دیکھنے پر بھی کشمیر ی یا کاشرٗ زبان نظر نہیں آئی۔ بعد میں دیکھا کہ کسی نامعلوم رسم الخط میں لکھی ایک سطر کے نیچے انگریزی میں لکھا تھا کہ یہ کشمیر ی زبان ہے۔ یعنی سرکاری طور پر باضابط کشمیری یا کاشرٗ کا رسم الخط شاردا میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اب اس میں شک و شبہے کی کوئی گنجایش ہی نہیں رہی کہ ریاست جموں و کشمیر کو تحلیل کرنے کے بعد کشمیری عوام کی غالب اکثریت کے تشخص ،تہذیب و کلچر پر بھارتی حکومت نے باضابط طور پر کاری ضرب لگانے کا بھی آغاز کر دیا ہے۔

    پچھلے سال اگست میں ریاست کو تحلیل کرکے اس کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بناکر اس کے آئین کو بھی منسوخ کرنے کے ساتھ ریاست کی سرکاری اور قومی زبان اردو کا جنازہ نکال دیا گیا تھا۔ اردو اب کشمیر کی سرکاری زبان نہیں ہے۔ چونکہ اس علاقے پر اب بھارت کی مرکزی وزارت داخلہ کی براہ راست عمل داری ہے، اس لیے اب جموں ،کشمیر و لداخ کی سرکاری زبان ہندی ہے۔ پچھلے سال ہی بی جے پی کے چند عہدے داروں نے ایک عرض داشت میں مطالبہ کیا تھا کہ ’’علاقائی زبانوں کا رسم الخط ہندی میں تبدیل کرکے ملک کو جوڑا جائے‘‘۔ اس کی زد میں براہ راست کشمیری (کاشرٗ) اور اردو زبانیں ہی آتی ہیں، جو فارسی۔عربی یعنی نستعلیق رسم الخط کے ذریعے لکھی اور پڑھی جاتی ہیں۔ اسی طرح چند برس قبل ایک موقعے پر بھارتی قومی سلامتی مشیر اجیت دوبال نے کہا تھا کہ ’’کشمیر مسئلہ کا حل تہذیبی جارحیت اور اس خطہ میں ہندو ازم کے احیا میں مضمر ہے‘‘۔

    مجھے یاد ہے ۲۰۱۴ء کے عام انتخابات سے قبل جب موجودہ وزیر داخلہ امیت شا کو اہم انتخابی صوبہ اتر پردیش کا انچارج بنایا گیا ، تو راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر آنجہانی ارون جیٹلی نے قومی میڈیا کے کچھ چنیدہ صحافیوں اور دہلی کے دیگر عمائدین سے ان کو متعارف کروانے اور ملاقات کے لیے اپنی رہایش گاہ پر ضیافت کا اہتمام کیا تھا۔ اس سے قبل امیت شا گجرات صوبہ کے وزیرداخلہ کی حیثیت سے فسادات، سہراب الدین اور ان کی اہلیہ کا پولیس انکاونٹر کروانے اور اس کی پاداش میں جیل کی ہوا کھانے اور پھر عدالت کی طرف سے تڑی پار ہونے کے لیے ہی مشہور تھے۔ اس تقریب میں وہ ہندستان ٹائمز کے ایک ایڈیٹر ونود شرما پر خوب برس پڑے کہ ’’تم ہر وقت ان کے خلاف ہی کیوں لکھتے رہتے ہو‘‘۔

    مجھے یاد ہے کہ کشمیری زبان کے چند پنڈت اسکالروں نے بھی وزیر موصوف کو سمجھایا کہ ’’کشمیری زبان میں ایسی چند آوازیں ہیں ، جن کو دیو ناگری اسکرپٹ میں ادا نہیں جاسکتا ہے‘‘۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ان آوازوں کو فارسی اسکرپٹ کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں بھی خاصی تحقیق و مشقت کرنی پڑی ہے۔ ان کو قدیمی شاردا اسکرپٹ میں بھی اب ادا نہیں کیا جاسکتا ہے‘‘۔ کشمیری زبان میں ۱۶حروف علت یا واولز اور ۳۵حروف صحیح ہیںنیز چھے ڈیگراف یا Aspirated Consonents ہیں۔ وزیر موصوف ، جو خود بھی ایک اسکالر تھے، کسی حد تک قائل ہوگئے اور یہ تجویز داخل دفتر کی گئی۔مودی حکومت نے برسرِاقتدار آنے کے بعد جب شمال مشرقی صوبہ اڑیسہ میں بولی جانے والی اوڑیہ زبان کو کلاسک زبان کا درجہ دیا، تو کشمیر کی ادبی تنظیموں کی ایما پر ریاستی حکومت نے بھی کشمیر ی زبان کو یہ درجہ دلانے کے لیے ایک یادداشت مرکزی حکومت کو بھیجی۔ فی الحال تامل، سنسکرت، کنڑ، تیلگو، ملیالم اور اوڑیہ کو بھارت میں کلاسک زبانوں کا درجہ ملا ہے۔ کلاسک زبان قرار دیے جانے کا پیمانہ یہ ہے کہ زبان کی مستند تاریخ ہو اور اس کا ادب وتحریریں۱۵۰۰سے ۲۰۰۰سال قدیم ہوں۔ اس کے علاوہ اس کا ادب قیمتی ورثے کے زمرے میں آتا ہو۔ نیز اس کا ادب کسی اور زبان سے مستعار نہ لیا گیا ہو۔ چونکہ ان سبھی پیمانوں پر کشمیر ی یا کاشرٗ زبان بالکل فٹ بیٹھتی تھی، اس لیے خیال تھا کہ یہ عرض داشت کسی لیت و لعل کے بغیر ہی منظور کی جائے گی۔ عرض داشت میں بتایا گیا تھا کہ ’’کشمیر ی زبان سنسکرت کی ہم عصر رہی ہے نہ کہ اس سے ماخوذ ہے۔ بھارت میں جہاں آجکل تاریخ کو مسخ کیا جارہا ہے، وہیں مختلف زبانوں کے ماخذ بھی سنسکرت سے جوڑے جا رہے ہیں۔ تب، مرکزی حکومت نے بتایا کہ کشمیری و اقعی کلاسک زبان قرار دیے جانے کی اہل ہے، مگر شرط رکھی کہ اس کے لیے اس کا رسم الخط سرکاری طور پر دیوناگری یعنی ہندی تسلیم کرناہوگا‘‘۔

    سوال یہ ہے کہ بھارتی حکومت کشمیری زبان کے رسم الخط کو تبدیل کرنے پر کیوں اصرار کررہی ہے؟ کشمیر کے آخری تاجدار یوسف شاہ چک کی ملکہ حبہ خاتون (زون) ہو یا محمود گامی یا عبدالاحد آزاد ، غلام احمد مہجور یا مشتاق کشمیری چونکہ عام طور پر سبھی کشمیری شاعروں نے اس خطے پر ہونے والے ظلم و ستم کو موضوع بنایا ہے اور تحریک آزادی کو ایک فکری مہمیز عطا کی ہے، اسی لیے شاید ان کے کلام کو بیگانہ کرنے کے لیے زبان کے لیے تابوت بنا جا رہا ہے۔ پچھلے ۷۰۰برسوں میں علَم دار کشمیر شیخ نورالدین ولی ہو یا لل دید، رسو ل میر، وہا ب کھار یا موجودہ دو ر میں دینا ناتھ نادم ، سوم ناتھ زتشی رگھناتھ کستور، واسدیو ریہہ ، وغیرہ ، غرض سبھی نے تو نستعلیق رسم الخط کو ہی اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا ہے۔ ۲۰۱۱ءکی مردم شماری کے مطابق وادی کشمیر اور وادی چناب میں ۸ء۶ملین افراد کشمیری زبان بولنے والے رہتے ہیں۔ آزاد کشمیر کے نیلم اور لیپا کی وادیوں میں مزید ایک لاکھ ۳۰ہزار افراد کشمیری کو مادری زبان قرار دیتے ہیں۔ علاقوں کی مناسبت کے لحاظ سے کشمیری زبان کی پانچ بولیاں یا گفتار کے طریقے ہیں۔ کسی کشمیری کے گفتار سے ہی پتا چلتا ہے کہ وہ ریاست کے کس خطے سے تعلق رکھتا ہے۔ ان میں مرازی(جنوبی کشمیر) کمرازی (شمالی کشمیر) یمرازی (وسطی کشمیر)، کشتواڑی (چناب ویلی) اور پوگلی(رام بن ) ہیں۔ جرمنی کی لیپزیگ یونی ورسٹی کے ایک محقق جان کومر کے مطابق کشمیر ی زبان آرین زبانوں کی ایک مخصوص فیملی سے تعلق رکھتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قواعد اور تاریخی جائزوںکے مطابق اس کا ایرانی یا انڈین زبانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ چونکہ سنسکرت اور کشمیری زبانیں ہم عصر رہی ہیں، اس لیے ان میں لفظوں کی ادلا بدلی موجود ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیری کو انڈو۔ داردک فیملی کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے۔ اس گروپ میں چترالی، شینا، سراجی، کوہستانی، گاوی اور توروالی زبانیں آتی ہیں۔ اگرچہ کشمیر کی قدیم تاریخ راج ترنگنی سنسکرت میں لکھی گئی ہے، مگر اس میں کشمیری زبان بہ کثرت استعمال کی گئی ہے۔

    کشمیری وازہ وان، یعنی انواع قسم کے پکوانوں کے ساتھ ساتھ کشمیر ی زبان اور اس کا ادب بھی کشمیر کے باسیوں کی ہنرمندی اور ان کے ذوق کی پہچان ہے ۔پاکستان اور آزاد کشمیر کی حکومتوں کو اس کا نوٹس لے کر کشمیری زبان و ثقافت کے بچائو کی تدبیریں کرنی چاہییں۔ کم سے کم یونیسکو کے ذمہ داروں کو باور کرائیں کہ ایک زندہ قوم سے اس کی ثقافت بزور طاقت چھینی جا رہی ہے۔ اس صورتِ حال کو اُجاگر کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کی شدید ضرورت ہے۔ ہوسکے تو دنیا کے مختلف شہروں میں کشمیری ثقافت، آرٹ، فن تعمیر و زبان کی نمایش کا اہتمام کیا جائے۔ اگر اب بھی نہ جاگے تو بے رحم تاریخ پاکستان اور آزاد کشمیر کے حکمرانوں کو کبھی معاف نہیں کرے گی:
    بادِ صبا اگر بہ جنیوا گزر کنی
    حرفے ز ما بہ مجلسِ اقوام باز گوے
    دہقان و کشت و جوے و خیابان فروختند
    قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند
    [بادِ صبا اگر جنیوا کی طرف تیرا گزر ہو تو مجلسِ اقوام تک ہماری یہ بات پہنچا دینا۔ دہقان، اس کی کھیتی، ندیاں، پھولوں کی کیاریاں سب کو فروخت کر دیا۔ ساری قوم کو فروخت کر دیا اور کس قدر ارزاں فروخت کر دیا۔]

  • Scam in Tribal Affairs Department: Role of ex-minister in Mehbooba Government under scanner

    Scam in Tribal Affairs Department: Role of ex-minister in Mehbooba Government under scanner

    Jammu, Mar 9: Role of a former minister of the previous PDP-BJP government is under scanner after Anti-Corruption Bureau (ACB) has registered a case against M S Choudhary, former Director, Tribal Affairs, J&K, who is presently posted as CEO/MD State Procurement and Supplies Agency RDD, J&K.
    The said officer, who is facing charges of swindling funds worth lakhs meant to impart computer training to the poor Scheduled Tribes (STs) student, was blue-eyed boy of the former minister.
    Credible sources said that it was all due to support of the said minister that M S Choudhary was appointed as Director, Tribal Affairs, J&K. “As the former minister was very much aware that huge funds would be pumped by the Centre directly to the Tribal Affairs Department, he took a tough stand that Choudhary must be appointed as Director of the same department”, sources revealed to the Early Times.
    Sources disclosed that it was all due to the former minister’s patronage, M S Choudhary took many important policy decisions on its own, which he was not competent to take. Importantly on March 4, Anti-Corruption Bureau (ACB), J&K, registered a case under the Prevention of Corruption Act and Section 120-B of the RPC against MS Choudhary, then Director, Tribal Affairs, J&K, (now posted as CEO/MD State Procurement & Supplies Agency RDD, J&K); Ali Hassan Raza, then Director, Tribal Affairs, J&K, (now retired), private beneficiary namely Nasreen Qadir of Jammu, proprietor of International Computer Training Centre, Rajouri, and other officials of the Tribal Affairs Department.
    The case was registered after a verification conducted by the ACB into the allegations that Director, Tribal Affairs, J&K, while implementing Post-Matric Scholarship scheme entitled for ST candidates indulged in gross violation of guidelines and released crores of rupees to unrecognised institutes for unrecognised courses.
    The ACB also conducted simultaneous raids at the residences of Choudhary in Rajouri and at his official residence in Trikuta Nagar, Jammu.
     
     

  • Five of family killed as  boulder falls on house in Udhampur

    Five of family killed as boulder falls on house in Udhampur

    Akshay Mahajan

    Udhampur, Mar 10 : Five members of a family including three minor girls, a boy and a lady were killed after a residential house was hit by a boulder in Barmeen Khein Udhampur district during night, the police said.

    Official sources told wire service that a loose rock rolled down through the house, killing five of the family members on the spot.

    The deceased were identified as Sharda Devi wife of Raj Singh, Aarti Devi daughter of Raj Singh, Anu Devi daughter of Raj Singh, Swani Devi daughter of Raj Singh, Pawan Singh son of Raj Singh all from Upper Barmeen.

    Meanwhile, the injured identified as Raj Singh, son of Munshi Ram was rushed to District Udhampur for treatments

  • Garbage takes sheen off Bathindi Inhabitants of Bathindi are up in arms against the authorities for failing to provide basic civic amenities saying it causes immense inconvenience to them.

    Garbage takes sheen off Bathindi Inhabitants of Bathindi are up in arms against the authorities for failing to provide basic civic amenities saying it causes immense inconvenience to them.

    Riaz Choudhary (GNS)
    Jammu: March 09, :-Muncipal Authorities In Slumber

    Residents of Bathindi area appealed JMC authorities to install dustbins in the locality and provide regular safaiwalas for disposal of domestic waste.

    Residents of Bathindi area, here appealed JMC authorities to install dustbins in the locality and provide regular safaiwalas for disposal of domestic waste.

    “There are no JMC dustbins in the colony. Besides, no regular safailwalas have been provided to the colony due to which many residents are forced to throw the waste in open causing pollution in the area,”

    “Pungent smell emanating from the garbage dumps has made our lives miserable. We appeal the JMC Commissioner to look into the matter,” they said.

    “The garbage dumps in the stream have become breeding ground of mosquitoes and parasites,” said Mohd Ibrar, a resident.

    The stream flows through the main town and most of the shops and business establishments are located on either side.
    Health experts warn that the presence of tons of garbage in the town can pose a threat to the inhabitants.

    “Heaps of garbage in the town is harmful for people especially students and children as it can cause various diseases among them. The garbage should be lifted and scientifically dumped far away from human habitations,” said Dr. Waqar Ahmad, a local resident.

  • اپوزیشن نے جموں وکشمیر کے سابق وزرائے اعلی فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت ریاست میں سبھی سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کیا مطالبہ

    اپوزیشن نے جموں وکشمیر کے سابق وزرائے اعلی فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت ریاست میں سبھی سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کیا مطالبہ

    نئی دہلی: اپوزیشن نے جموں وکشمیر کے سابق وزرائے اعلی فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت ریاست میں سبھی سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے پیر کو کہا ہے کہ لوگوں کو غیر معینہ مدت تک نظربند رکھنا آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے صدر شردپوار، مغربی بنگال کی وزیراعلی اور ترنمول کانگریس کی صدر ممتا بنرجی، سابق وزیراعظم اور جنتا دل سیکولر کے صدر ایچ ڈی دیوے گوڑا، مارکسی کمیونسٹ پارٹی کے سکریٹری جنرل سیتا رام یچوری، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا ڈی راجہ ، راشٹریہ جنتا دل کے منوج کمار جھا، سابق مرکزی وزیر یشونت سنہا اور ارون شوری نے دہلی میں جاری مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ جموں وکشمیر کے تینوں سابق وزرائے اعلی اور دیگر سیاستدانوں کو غیر معینہ مدت تک نظربند نہیں رکھا جاسکتا۔ یہ آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
    بیان میں کہا گیا ہے کہ ”جموں وکشمیر کے تینوں وزرائے اعلی اور دیگر سیاست داں نظر بند لوگوں کی رہائی کا مطالبہ کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔اس کے علاوہ اپوزیشن پارٹیاں کشمیر کے لوگوں کے حقوق اور آزادی کو پوری طرح سے بحال کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔” اپوزیشن لیڈروں کا کہنا ہےکہ ہندوستانی آئین تنوع میں یکجہتی پر اعتماد کرتا ہے اور ہر ایک کے خیالات کی قدر کرتا ہے۔ نریندر مودی حکومت میں جمہوری اختلاف کو انتظامی مشنری کے ذریعہ دبایا جارہا ہے۔یہ آئین میں دیئے گئے انصاف، آزادی، مساوات اور بھائی چارگی کے جذبات کے خلاف ہے۔

    بیان کےمطابق ریاست میں 5 اگست 2019 سے ان لوگوں کو قیدمیں رکھا گیا ہے۔ ریاست کےکروڑوں لوگوں کےحقوق اور اقدار پر حملہ ہے۔ تینوں وزرائے اعلی کا کوئی ایسا ریکارڈ نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کی سرگرمیاں عوام مخالف اور ملکی مفادات کے لئے خطرہ بن سکتا ہے۔ خود بھارتیہ جنتا پارٹی ان لیڈروں کی پارٹیوں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کےساتھ مرکز اور ریاست میں سیاسی اتحاد بناکر حکومت کرچکی ہے۔

    جمہوری روایات، بنیادی حقوق اور شہریوں کی آزادی پر حملہ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اختلافات کو نہ صرف دبایاجارہاہے بلکہ تنقید کرنے والوں کو خاموش کرایا جارہا ہے۔ جموں وکشمیر کے واقعات وزیراعظم اور وزیر داخلہ امت شاہ کے ریاست میں ‘معمول کے حالات ‘ ہونے جیسے بیانوں کی قلعی کھولتا ہے۔ غیر ملکی سیاستدانوں کے کشمیر کے دورہ کرنے پر تنقید کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈروں �

    بیان کےمطابق ریاست میں 5 اگست 2019 سے ان لوگوں کو قیدمیں رکھا گیا ہے۔ ریاست کےکروڑوں لوگوں کےحقوق اور اقدار پر حملہ ہے۔ تینوں وزرائے اعلی کا کوئی ایسا ریکارڈ نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کی سرگرمیاں عوام مخالف اور ملکی مفادات کے لئے خطرہ بن سکتا ہے۔ خود بھارتیہ جنتا پارٹی ان لیڈروں کی پارٹیوں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کےساتھ مرکز اور ریاست میں سیاسی اتحاد بناکر حکومت کرچکی ہے۔

    جمہوری روایات، بنیادی حقوق اور شہریوں کی آزادی پر حملہ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اختلافات کو نہ صرف دبایاجارہاہے بلکہ تنقید کرنے والوں کو خاموش کرایا جارہا ہے۔ جموں وکشمیر کے واقعات وزیراعظم اور وزیر داخلہ امت شاہ کے ریاست میں ‘معمول کے حالات ‘ ہونے جیسے بیانوں کی قلعی کھولتا ہے۔ غیر ملکی سیاستدانوں کے کشمیر کے دورہ کرنے پر تنقید کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈروں �

  • ACB registers case against Chairman J&K Co-operative Bank & Others for sanctioning loan in favour of non-existent co-operative society ,Searches Conducted

    ACB registers case against Chairman J&K Co-operative Bank & Others for sanctioning loan in favour of non-existent co-operative society ,Searches Conducted

    9 Feb: Beig Shamim Ahmed:
    According to reports that the outcome of Preliminary enquiry (PE) conducted by Anti Corruption Bureau, it surfaced that Chairman J&K Co-operative Bank Ltd. in convenience with officials/ beneficiary has sanctioned an amount of Rs. 223.00 Crores fraudulently in favour of nonexistent Co-operative Society under the name and style of “ River Jehlem Co-operative house Colony at Shivpora Srinagar” shown owned /run by one Hilal Ahmad Mir S/o Kh. Sana-ullah Mir R/o Magarmal Bagh Srinagar (Beneficiary).

    Reports said during PE it was further revealed that the so called Chairman of the said society has moved an application to Secretary Cooperatives, Administrative Department of Co-operative Societies, where under he sought directions to J&K Cooperative Bank Ltd for grant of financial assistance to the tune of Rs. 300.00 Crores for taking over possession of 300 Kanals of land located in the outskirts of Srinagar for construction of Satellite Township. The application was endorsed to Registrar Cooperative Societies J&K for taking up the matter with Jammu and Kashmir State Cooperative Bank. Accordingly J&K Cooperative Bank Srinagar Sanctioned Loan to the tune of Rs. 223 Crores without adhering any codal formalities, i,e. obtaining the details of the Society Viz. Balance Sheet, Profit and loss Account business, activities being done by the Society, PAN No. Income Tax return, details of Construction of the Board, Board Resolutions, etc.

    During Enquiry it also surfaced that River Jhelum Cooperative Housing Building Society has not been even registered with Registrar Co-operative Societies, J&K . The Chairman of the So Called River Jhelum Cooperative House Building Society Ltd. Hilal Ahmad Mir S/o Sana-ullah Mir R/o Magarmal Bagh, Srinagar by acting in league with Chairman of J&K Cooperative Bank Srinagar and others, has prepared fake and fictitious registration certificates and managed the sanction of loan amount to the tune of Rs. 223 Crores..

    The above mentioned acts of omission and commission on the part of Mohammad Shafi Dar Chairman J&K State Co-operative Bank Raj Bagh Srinagar and others in conspiracy with Hilal Ahmad Mir S/o San-ullah Mir R/o Magarmal Bagh , Srinagar constitute the offences punishable U/S 5(1)(d) r/w Section 5(2) P.C Act and Sections 465,467,468,471, 120-B ..readmore…

    https://www.facebook.com/875883632468058/posts/2976775572378843/
  • OPPOSITION MAIN PILLAR OF DEMOCREACY- DEEPAK RAINA

    OPPOSITION MAIN PILLAR OF DEMOCREACY- DEEPAK RAINA

    PDP leader Deepak Raina today while conducting public meeting at village khanpur near Hiranagar lambasted BJP government at centre for using ill methods to suppress the voice of opposition. While addressing Raina said anyone who speaks against the Government and questions government is termed as anti national . Citing recent example he said the judge who told Delhi police to register FIR against Hate speech by BJP leaders in Delhi was transfered withing hours after order. Raina said suppressing Opposition and it’s voice is murder of democracy as Opposition is one of the main pillars of Indian democracy and BJP is using ill methods to suppress it. HE said now days CBI,ED are main weapons of BJP against Opposition.
    Raina directly questioned local
    MP both from BJP to show there progress report regarding developmental projects carried by them in district kathua during their tenures. He said no new project started in the area and the ones started during his tenure are still waiting for completion . Raina said on an average payments of 2-3 crores in pending in each block of kathua under MNREGA which is further forcing contractors and workers to lead a miserable life. He said one side govt conducted back to village 1 & 2 but though after promising with people they have failed miserably in clearing the said payments which amount to approx. 500-600 crores. Raina further said that people are facing hardship due to shortage & non availability of ration espicially sugar in ration deposits. He said present government I only govt of show and pomp and expertise in making hollow promises with masses but nothing is visible on ground regarding developmental works.

  • اندروال کشتواڑ سے تعلق رکھے والے بھارتی جنتا پارٹی کے سینر لیڈر لیفٹننٹ گونر کے مشیر فاروق احمد  خان سے ملاقی

    اندروال کشتواڑ سے تعلق رکھے والے بھارتی جنتا پارٹی کے سینر لیڈر لیفٹننٹ گونر کے مشیر فاروق احمد خان سے ملاقی

    عاشق دیو

    کشتواڑ

    ضلع کشتواڑ سے تعلق رکھنے والے بھارتی جنتا پارٹی کے سینیر لیڈرطاریق حسین کین اپنے ساتھیوں کے ہمراہ لیفٹیننٹ گورنر کے مشیر فاروق احمد خان سے ملاقات کی جبکہ مزکورہ لیڈر کے ہمراہ بھارتی جنتا پارٹی کےکئ بلاک صدور جن میں بلاک صدر ٹھاٹھری سھباش کمار، بلاک صدر مغل میدان شری میل رام، بلاک صدر بونجواہ شاہد حسین بٹ، بلاک صدر چھاترو روشن لال، بلاک صدر قاہرہ وشین پریہار قابل ذکر ہیں نے بھی مشیر موصوف سے ملاقات کی اس دوران طارق حسین کین نے مشیر موصوف کے سامنے علاقہ کے چند مسایل پیش کئے اور انہیں گزارش کی کہ علاقہ کی تعمیر وترقی کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں جبکہ مزکورہ سیاسی رہنماوں نے وزیر موصوف کو بتایا کہ بلاک چھاترو، بلاک بونجواہ اور بلاک ٹھاٹھری میں پبلک دربار کا انعقاد کیا جائے اور دیوی گول بونجواہ اور بمل ناگ کو سیاحت کا درجہ دیا جاے تاکہ قدرت کی ان حسین وادیوں کا صحیح معنوں میں استعمال عمل میں لا یا جائے جس سے عوام کو بھی کافی فایدہ حاصل ہوگا اس کے علاوہ بونجواہ میں SBI بینک کا برانچ قائم کرنے کی بھی گزارش کی گئی جبکہ علاقے کی تعمیر وترقی کیلئے کئ اہم مسائل جن میں وومنس کالج کشتواڑ، ڈگری کالج جکیاس بونجواہ اورڈگری کالج ٹھاٹھری کیلئے عمارت کی تعمیر کے علاوہ PHCکنڑوٹ کو بھی مشیر موصوف کے سامنے رکھا گیا تاہم مشیر موصوف نے وفد کو یقین دلایا کہ انکے مسائل پر پوری طرح توجہ دی جاے گی اور انکے تمام تر ضروری مسائل مستقبل قریب میں حل کئے جائیں گے اس دوران وفد نے مشیر موصوف کی یقین دہانی پر انکا شکریہ ادا کرتے ہوے نمایندے کو بتایا کہ انہیں پورا یقین ہے کہ انکے تمام تر مشکلات پر بھر پور توجہ دی جائے گی اور ضلع کشتواڑ کو ترقی کی اونچائیوں تک پہنچنے میں انتظامیہ کوئی دقیقه فرد گزاشت نہی کرے گی

  • حد بندی سے جموں کو مزید سیاسی قوت ملنےکا امکان ہے

    حد بندی سے جموں کو مزید سیاسی قوت ملنےکا امکان ہے

    سری نگر: مرکز نے جموں و کشمیر میں حد بندی مشق کو ایک سال کے اندر اندر مکمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے امکان ہے کہ ریاست کے خطے کی مقننہ میں کشمیر سے زیادہ ایم ایل اے کے ساتھ جموں خطے کے ساتھ طاقت کا توازن ٹل جائے گا۔ جمعہ کو ، مرکز نے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس رنجنا دیسائی کی سربراہی میں ، جموں و کشمیر کے اسمبلی اور پارلیمانی انتخابی حلقوں کو جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ ، 2019 کے مطابق از سر نو تشکیل دینے کے لئے حد بندی کمیشن کے تشکیل کو مطلع کیا تھا۔ گذشتہ سال 5 اگست کو آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے بعد ، اس سے پہلے ریاست کو جموں و کشمیر اور لداخ کے دو الگ الگ UTs میں کھڑا کیا گیا ، سابقہ ​​مقننہ کے ساتھ۔ جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ کے مطابق ، جموں و کشمیر میں موجودہ 85 میں سات نشستیں شامل کی جانی ہیں۔ اعلی ذرائع نے بتایا کہ 24 مختص نشستوں والے پی او کے کی حد بندی کی مشق میں کوئی اچھ .ا رہے گا۔ اس وقت ، خطے میں 46 نشستیں ہیں اور جموں 37 ، دو نامزد ممبران کے علاوہ۔ حد بندی کمیشن ، جو بیک وقت چار شمال مشرقی ریاستوں آسام ، اروناچل پردیش ، ناگالینڈ اور منی پور میں اسی طرح کی مشق کرے گا ، 2011 کی مردم شماری کے مطابق اسمبلی حلقوں کی تقسیم کرے گا۔ ذرائع کے مطابق ، جموں کے اس خطے میں ، جس نے 1990 کی دہائی سے عسکریت پسندی سے متاثرہ کشمیر سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کرتے ہوئے دیکھا تھا ، کے پاس نئی مقننہ میں زیادہ نمائندے ہوں گے۔ سنہ 1989 میں مسلح عسکریت پسندی شروع ہونے کے بعد ہندو اکثریتی جموں خطے میں مسلمان اور ہندو دونوں کی وادی سے فرار ہونے کی تعداد دیکھنے میں آئی تھی۔ تاہم ، اگر آبادی کی بنیاد پر جموں کے علاقے کو زیادہ نشستیں الاٹ کردی گئیں تو ہر حلقے میں کشمیر کے برعکس رائے دہندگان شامل ہوں گے۔ جموں وکشمیر میں آخری حد بندی کی مشق 1995 میں کی گئی تھی۔ پی او کے کی 24 نشستوں پر “اسمبلی کی کل ممبرشپ کے حساب کتاب” میں غور نہیں کیا جائے گا اور یہ خالی رہے گی اور حد بندی کی مشق میں اسے خارج کردیا جائے گا۔ حد بندی کے بعد اسمبلی کی کل نشستیں 107 سے بڑھ کر 114 ہوجائیں گی۔ حد بندی مشق کے ذریعہ متعدد مخصوص انتخابی حلقوں کا بھی سبب بنے گی جو شیڈول ذات اور تخریباتی قبیلوں کی آباد کاریوں پر مبنی ہیں اور یہ جموں خطے کے حق میں توازن کو مزید جھکائے گی۔ حدود کو ازسر نو شکل دینے میں ، کمیشن کو یہ تاکید کی گئی ہے کہ وہ جغرافیائی طور پر کمپیکٹ ایسے علاقوں کو تشکیل دے جس میں تالقوں اور اضلاع کے ساتھ ملحقہ حلقوں میں باہم پابند رہنا چاہئے۔ انتخابی کمیشن اپنی تجاویز کو انتخابی حلقوں کی حد بندی کے ساتھ ناراضگی کی تجاویز کے ساتھ ، اگر کوئی ہے تو ، سرکاری گزٹ میں اعتراضات اور مشوروں کی دعوت کے نوٹس کے ساتھ شائع کرے گا۔ ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ تمام تجاویز پر غور کرنے کے بعد ہی کوئی حتمی فیصلہ لیا جائے گا۔