GNS ONLINE NEWS PORTAL

سلطان ہند خواجہ محی الدین چشتی رح

Facebook
Twitter
WhatsApp
Email

“سلطان ہند خواجہ محی الدین چشتی رح نے ایک شرابی نومسلم کو دیکھتے فرمایا “لوگو یہ اللہ کا دوست ہے”
حضرت قطب الدین بختیار کاکی رح فرماتے ہیں کہ ایک روز حضرت خواجہ محی الدین چشتی رحمتہ اللہ ا اپنے عقیدت مندوں کے ساتھ اجمیر تشریف فرما تھے کہ ایک شخص وہاں سے گزرنے لگا جس کے قدم شراب کے نشے سے لڑکھڑا رہئے تھے ۔ یہ شخص راجپوت تھا جو بہت امیر تھا۔ کہنے لگا خواجہ اس گنہاگار کا سلام قبول کرو تمہارے قریب آنا چاہتا ہوں مگر اپنی بدعمالی سے شرم آتی ہے۔ یہ کہہ کر وہ لڑکھڑاتا ہوا آگے بڑھ گیا ۔
اسے جاتا دیکھ سلطان ہند نے اپنے حلقے میں بیٹھے لوگوں سے فرما یا ۔ اس شخص کو غور سے دیکھ لو۔ “یہ اللہ کا دوست جا رہا ہے”
سلطان ہند کے الفاظ سن کر تمام لوگ حیرت زدہ ہو گئے ۔ لوگ اسے جانتے تھے کہ یہ بہت بڑا شرابی ہے ہندو راجپوت ہے ۔ دن رات شراب کے نشے میں رہتا تھا ۔ کچھ لوگ خواجہ سے اس کی حقیقت بتانا چاہتے تھے لیکن لب کشائی کی جرت نہیں کی۔
کچھ دن بعد پھر یہی واقعہ پیش آیا ۔ وہ ہندو راجپوت اسی طرح لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے آیا ۔ کچھ دیر تک کسی غلام کی مانند سرجکھائے کھڑا رہا پھر اسی انداز میں دونوں ہاتھ جوڑ دیے ۔ خواجہ میرا سلام قبول کرو۔ میں ادھر سے گزرنا نہیں چاہتا ۔ مگر نہ جانے کون میرے ناپاک قدموں کو آپ کے دربار کی طرف موڑ دیتا ہے۔ یہ کہہ کر وہ جھومتا ہوا چلا گیا ۔
سلطان ہند نے اپنے مریدوں کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا اس شخص کو غور سے دیکھو اللہ کا دوست جا رہا ہے وہ بڑا صاحب نعمت ہے ۔
خاضرین پھر حیرت میں ڈوب گئے ۔ اب کی بار سلطان ہند نے ایک نئی بات کہی تھی کہ وہ بڑا صاحب نعمت ہے ۔ لوگ پھر اس کی حقیقت رکھنا چاہتے تھے لیکن سلطان ہند کے جلال معرفت کے آگے ان کی زبانیں گنگ ہو گئیں۔
پھر تیسری بار بھی یہی معاملہ پیش آیا اس شخص نے اسی انداز میں سلام کیا اور بڑےدرد ناک لہجے میں کہنے لگا ۔ خواجہ پھر مجھے کوئی یہاں کھینچ لایا ۔ میں اپنی روسیاہی کو کدھر لے جاوں ۔ یہ کہہ کر وہ حسب دستور چلا گیا ۔پھر خواجہ محی الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ نے فرما یا اپنے حلقے میں بیٹھے عقیدت مندوں کو لوگوں کو کتنا ناگوار گزرے گا مگر میں کہتا رہوں گا کہ وہ اللہ کا دوست ہے۔ اگر وہ دن میں ہزار بار بھی ادھر آئے گا تو میں اسے صاحب نعمت کہہ کر پکاروں گا ۔ یہ الفاظ ان لوگوں کہ طرف اشارہ تھا جو درپردہ اس شخص کے کردار کو ظاہری طور دیکھ رہے تھے۔ آخر ایک شخص نے مجلس میں کھڑے ہو کر دست بستہ عرض کی “سیدی” آپ بہت جانتے ہیں لیکن یہ شخص شرابی ہے دن رات نشہ میں مست رہتا ہے۔
سلطان ہند نے کہا ہاں وہ شرابی ہے اس میں کی بلانوشی سے باخبر ہوں مگر تم اللہ کی شان کرم سے واقف نہیں ۔
اللہ ہر شے سے بے نیاز ہے جب وہ کسی کو دیتا ہے تو بے سبب دیتا ہے۔ عنقریب اللہ اس پر اپنے ک سے بارش اس قدر کرے گا کہ لوگوں کا ہجوم اس کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھے گا۔ کچھ لوگوں نے اس کے مشاغل جاننے کی کوشش کی تو عجیب و غریب انکشاف ہوا۔اس مال دار شخص کے ماں باپ مر چکے تھے۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا اس نے شادی بھی نہیں کی تھی ۔ سرمایے کی کثرت اور تنہائی نے اسے شرابی بنا دیا۔ اور پھر شراب اسے رقص و سرور کی محفلوں میں لے گئے ۔ ایک بوڑھے ملازم نے ان لوگوں کو بتا یا کہ وہ نصف رات تک خوبصورت عورتوں کے رقص سے دل بہلاتا ہے۔ پھر ان سب کو مفت و حقارت کے ساتھ اپنے کمرے سے باہر کر دیتا ہے ۔ اس کے بعد رات بھر شراب پیتا ہے اور عالم بے خودی اس وقت تک چیختا رہتا ہے جب رک بے جان ہو کر بستر پر نہیں گر جاتا ۔ میں کدھر جاوں میری منزل کہاں ہے ۔ ایسی آوازیں نکالنا رہتا ہے۔
ایک دن اسے منزل مل گئی وہ سرجکائے ہوئے خواجہ کی خانقاہ میں داخل ہوا ۔آج اس کے قدموں میں ہلکی سی لرزش بھی نہیں تھی ۔ تمام لوگ حیرت میں مبتلا تھے ۔ ہندو راجپوت نے اپنا دستور بدل ڈالا تھا ہر کسی کی نظریں اس سیاہ کار شرابی پر جمی ہوئی تھی ۔ اچانک اہل مجلس نئے سلطان ہند کی آواز سنی ۔ ” دیکھو اللہ کا دوست آرہا ہے ” پھر وہ راجپوت سلطان ہند کے قدموں سے لپٹ کر رونے لگا شاہا تیرے سوا اس غلام کی کوئی منزل نہیں میں نے تیری مملکت کی حدود سے نکل جانے کی بہت کوشش کی مگر جب آنکھ کھلی تو دیکھا کہ ہر مقام آپ کی راۓ گزر میں ہے۔ میں تیرے در کے سوا کہیں نہیں جا سکتا ۔ مجھے اپنے گھر کی درباری بخش دے یہی میرا شرف ہے۔ اس کی آواز اتنی رقت آمیز تھی کہ اہل مجلس بھی رو پڑے۔
سلطان ہند نے اسے اپنے قدموں سے اٹھا کر گلے سے لگا لیا اور فرمائے لگے اے جان بے قرار تجھے خوشخبری ہو کہ تو اللہ کے دوستوں میں شامل ہے ۔ اس نے پڑھ لیا میں وفائی دیتا ہوں اللہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں
پھر شراب کے برتن توڑ دیے رقص و سرور کی محفلیں اکھاڑ دی گئیں اور اس شخص نے یہ کہہ کر اپنا سارا سرمایہ بندگان خدا میں کے درمیاں لٹا دیا کے سلطان ہند کے در کی گدائی میرے لیے کافی ہے۔
اس کے بعد جب ساری دنیا سو جاتی یہ ساری رات خواجہ رح کے حضور ہاتھ باندھے کھڑا رہتا ۔ حضرت سلطان ہند گرانے لگے آخر تمہاری جان پر بھی تمہارا حق ہے ۔ یہ کہنے لگا شاہا میرے گنہاگار پیروں کا حق یہ ہے کہ وہ سلطان ہند کی بارگاہ میں کھڑے رہیں ۔ آنکھوں کا حق یہ ہے کہ وہ سلطان ہند معرفت کے چہرے کو دیکھتے دیکھتے پتھر ہو جائیں ۔ اور جان بے قرار کا حق یہ ہے کہ غلام اپنے شاہ کے قدموں پر جان دے دے یہ کہتے کہتے شدت گریہ سے نو مسلم کی آواز ڈوبنے لگی۔
حضرت خواجہ رح کا دست کرم بلند ہوا نو مسلم راجپوت آگے بڑھ کر سلطام ہند کی قدموں سے لپٹ گیا ۔ نصف شب کا عالم تھا خضرت خواجہ نے دونوں ہاتھ دراز کر دیئے وہ اپنے خادم کے کیے خداوند زلجلال سے سلامتی مانگ رہے تھے ۔ اے خلاق عالم تیرا یہ گنہاہ گار بندہ اپنے اباواجداد کی مشرکانہ روائیتوں خو چھوڑ کر کوچہ واحدنیت کی طرف آیا ہے۔ اس کے مضطرب قدموان کو اپنی راہ میں جما دے۔ اس کے ڈوبتے ہو دل کو اپنے دست قدرت سے تھام لے۔ اور اس کے گناہوں کو معاف کر دے۔
پھر کل تک جو نومسلم پتھروں کا پرجاری تھا اور خود بھی پتھر تھا ۔ خضرت خواجہ کی دعاوں سے اکسیر بن گیا جس پتھر کو چھو لیتا اسے سونا بنا دیتا ۔ اہل اجمیر نے اپنی آنکھوں سے ایک بت پرست سیاہ کار کو ” ولی” اور “صاحب نعمت ” ہوتے ہوئے دیکھا ۔ جب حضرت بختیار کاکی رحمت اللہ نے سلطان ہند کی یہ کرامت بیان فرمائی مخالفین کی آنکھیں بھی آنسوں سے بھیگ گئیں۔ تحریر لیاقت علی چودھری 9419170548

Poll

[democracy id="1"]

Share Market

Also Read This

Gold & Silver Price

today weather

Our Visitor

1 1 6 8 1 2
Users Today : 54
Users Yesterday : 274