نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم امابعد فعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرحیم
آپ کا نام حضرت بابا سائیں لال دین رحمتہ اللہ علیہ ہے۔ آپ کے اباواجداد آج کی قائم سرحد کے اس پار سوہانا سے راجوری میں تشریف لاے تھے۔ آپ کے والد محترم کا نام سائیں نیک محمد تھا۔ یہ بھی اللہ کے عبادت گزار و نیک سیرت بزرگ تھے۔ ان کی قبر اسی گاوں کے قریب ہے۔ آپ کی اولاد میں حضرت سائیں اکبر رحمتہ اللہ علیہ اور سائیں صوفی رحمتہ اللہ علیہ اللہ بھی ولی گزرے ہیں۔ آپ بے کس و بے بس، بیمار و لاچارچ لوگوں کے علاج کا زریعہ بنے رہے ۔ جس میں کوڑھ جیسی لاعلاج و دوسری امراض پر مریض شفا پاتے تھے۔ آسانی سے دستاب ہونی والی چیز بیمار کو استعمال کرنے کے لیے فرما دیتے تھے اللہ کے حکم سے وہ شفا پاتے تھے۔ اس کے علاوہ جس کسی نے اپنے نیے گھر کی تعمیر کرنی ہوتی تھی یا مسجد شریف کی تعمیر آپ سے سلسلہ وار اجازت طلب کرتے تھے اور انشاللہ اس کےبعد یہاں ہر طرح کا سکون حاصل ہوتا تھا۔ آپ لوگوں کے جسم کے اندر چھپے امراض کے علاوہ زمین کے اندر کیا ہے اس کابھی میلوں دور سے بیٹھ کر بتا دیتے تھے۔
آپ کے اباواجداد کی راجوری میں تشریف آوری کا بھی ایک دلچسپ اور کرامات سے جڑا قصہ ہے۔ راجوری نگہون کی پہاڑ ی کی چوٹی پر قائم ایک درگاہ ہزاروں عقیدتمندوں کا چین کا مرکز بن گئی ہے۔ حضرت بابا لال دین رحمتہ اللہ علیہ کے دادا ایک دوسرا شحص اور سائیں صدیق صاحب رحمتہ اللہ علیہ اپنی جوانی کے دوران آج کی قائم سرحد کے اس طرف کے علاقہ سوہانا سے تشریف لا رہے تھے ۔ جب گاوں نگہون کی اس چوٹی پر پہنچے تو بابا سائیں صدیق صاحب نے ایک بوڑھی مائی سے پانی طلب کیا پینے اور وضو فرمانے کے لیے تو اس عورت نے پانی دینے بسے انکار کر دیا۔ ایک تو اس پہاڑ پر پانی کی زبردست قلت پہلے سے ہی تھی۔ دوسرا ان تین مسافروں کو جان کر اتنا پانی کہاں سے دیا جاے۔ البتہ اللہ کو ایسا ہی منضور تھا۔ جب عورت نے پانی سے انکار کیا اللہ کے ولی کو نماز ادا کرنے کے لیے پانی درکار تھا۔ ایسے میں ایک ایس کرامت ظاہر ہوئی جس کا چرچہ آج بھی جاری ہے۔ ان کے ساتھی بھی یہ سب دیکھ رہے تھے۔ سائیں صدیق صاحب نے ایک چیڑ کی لکڑی جو پاس ہی پڑی تھی۔ اسے اٹھا کر زور سے زمین پر پٹک دیا دیکھتے ہی وہاں سے پانی نکلنا شروع ہو گیا۔ البتہ پانی زیادہ ہی مقدار میں بہنا شروع ہو گیا۔ تو سائیں صاحب نے فرمایا اتنا زیادہ نہیں چاہیے بس اتنا ہی چاہیے جتنا استعمال میں لایا جا سکے۔ نہ کبھی خشک ہو اور نہ ہی زیادہ بہنا۔ ایک لکڑ جسے، خیر، کی لکڑ کہا جاتا ہے اسے اپنے ہاتھ سے لے وہاں لگا دیا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ سینکڑوں سالوں سے وہی لکڑ اس پانی کے آگے آج بھی موجود ہے۔ یہ آج تک نہ کبھی سوکھا ہے اور نہ ہی کبھی اس باولی سے باہر نکلتا ہوا دیکھا گیا ہے۔ آج بھی وہاں ایک چوٹی پر جس کے نہ تو دائیں طرف کو کوئی میدان ہے نہ بائیں طرف بلکہ خود ایک پہاڑ کا ٹیلہ ہے جس سے اللہ کا یہ انمول خزانہ اللہ کے حکم سے اللہ کے اس ولی نے جاری کیا۔ اب یہ کرامتیں جب ظاہر ہو گئی تو شاید اللہ کی یہی مرضی تھی کہ اس اللہ کے پیارے بندے کو وہی پر غائب ہو جانا تھا۔ اس کے بعد سائیں صاحب نے ایک جگہ کی زمین کے اندر کھدائی کی قبر کی شکل میں اور چھوٹا سا کمرہ بھی کہا جا سکتا ہے جسے اندر سے کسی بے نہیں دیکھا نہ آج تک کوئی اندر گیا ہے اور نہ ہی اندر سے کوئی باہر آیا ہے۔ کیوں کہ اس میں ایک کھڑکی بھی سکیں صاحب نے لگائی تھی جو آج بھی موجود ہے۔ جس سے اندر جانے کا راستہ تھا۔ سائیں صاحب پانی کا ایک لوٹا لیے ایک بار اس کھڑکی سے اندر تشریف لے گئے تھے پھر کبھی واپس اس دنیا میں نہیں آئے سالوں تک لوگ پانی کا لوٹا بھر کر وہاں رکھ دیا کرتے تھے اور بعد میں اسے خالی پاتے تھے۔ پھر کچھ عرصہ بعد یہ سلسلہ بھی بند ہو گیا۔ تو یہ اللہ کے ایک پیارے ولی کا مختصر قصہ ایک دوسرے ولی کی داستان میں رقم ہو گیا ہے کیوں کہ راجوری تشریف لانے میں ہمسفر ہوے تھے۔
ہم بات کر رہے ہیں حضرت بابا سائیں لالا دین رحمتہ اللہ علیہ کی آپ حضرت بابا سا گنجی بادشاہ رحمتہ اللہ علیہ سے بیعت تھے۔ آپ حضرت بابا سائیں گنجی بادشاہ رحمتہ اللہ علیہ کے خدمت میں بارہ سال تک رہے ہیں۔ خدمت کا قصہ بھی عجیب ہے اللہ کے ولیوں کے کارنامے دیکھ کر ہمارے جیسا عام انسان حیران ہو جاتا ہے یا پھر اپنےعقل سے ایسی باتوں کے تسلیم کرنے سے معزوری کی بنا پر دوسرا راستہ نکال لیتا ہے۔ جو سہی نہیں ہے اللہ خود فرماتا ہے اللہ کے ولی کو نہ کوئی خوف ہے نہ کوئی رنج۔ سائیں بابا گنجی رحمتہ اللہ علیہ کی بہت ساری زندگی درہالی دریا جو ان کے مزار سے بالکل نیچے بہہ رہا ہے اس کے برفیلے پانی میں اور اس کی گرم ریت میں گزرا ہے۔ حضرت بابا سائیں لال دین رحمتہ اللہ علیہ سحری کے وقت دودھ اور پانی کو ملا کر جیسے ہم کچی لسی کہتے ہیں لے جایا کرتے تھے اور انہیں حضرتِ بابا گنجی بادشاہ رحمتہ اللہ علیہ کو پلا کر فجر سے پہلے ہی واپس آجاتے تھے تو یہ سلسلہ ان کا بارھ ۱۲ سال تک جاری رہا۔ پھر اس کے بعد آپ بیعت بھی ہوے اور حضرت بابا سائیں گنجی بادشاہ رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کے لیے دعا فرمائی اور کہا جا جوبھی علاج بتاے گا اللہ شفا دے گا۔ اللہ کوڑھ سے بھی شفا دے گا جو تیرے منہ سے نکلے گا شفا پاے گا۔
ایک اس کے متعلق قصہ رکھنے کی جسارت رکھتا ہوں۔ ایک مرتبہ تھنہ منڈی الال گاوں کا رہنما والا ایک شخص صابدین نامی جسے کوڑھ جیسی لاعلاج بیماری تھی لار شریف علاج کے لیے پہنچا تو وہاں پر حضرت بابا میاں بشیر احمد لاری مدضلہ علیہ نے اس شخص سے فرمایا کہ تو بابا لال دین مرگاں والے کے پاس چلا جا تیرا علاج وہاں ہے۔ تو یہ شخص واپس مرگاں آیا تو حضرت بابا سائیں لال دین رحمتہ اللہ علیہ نے اسے مٹی کا تیل پینے کے لیے کہا ،،جا مٹی کا تیل پی ٹھیک ہو جاے گا۔ ،، اس شخص نے ۹ لیٹر مٹی کا تیل پیا جس سے اسے شفا ہو گئی دوبارہ اسوج کے مہینے میں یہ واپس آیا جب بالکل ٹھیک ہو گیاگیا تھا۔
ایک مرتبہ ایک عورت آئی جسے زہر ہوگیا تھا اس نے ، سانپکنج،، کھا لی تھی آپ نے اسے فرمایا کیا ہوا تو کہتی ہےزہر ہوگیا ہے۔ آپ اس وقت کہیں غصے میں تھے اسے فرمایا جا زہر کھا مطلب ،،سنکھیا،، کھا۔ اس نے سنکھیا کھایا اس کے بعد اسے الٹیاں وغیرہ ہوئیں۔ اس کے بعد یہ عورت دوبارہ واپس آئی یہ کہنےلگی بابا جی میں ٹھیک ہو گئی ہوں آپ نےفرمایا کیسے کہنے لگی آپ نے بتایا تھا سنکھیا کھا میں نے کھا لیا تو میں اسی سے ٹھیک ہو گئ ہوں آپ نے فرمایا میں نے تو غصہ میں کہا تھا۔ تو مرجاتی تو میں پھنس گیا تھا۔ البتہ اسے کہا جا اب ادھبوریا پی لے اب ٹھیک ہے تو۔
ایسی بیماریوں کے متعلق کتنی کرامتیں لوگوں کے سامنے ہیں اور کتنی کا کسی کو کوئی معلوم ہی نہیں اللہ بہتر جانتا ہے۔ ہمہشہ کہا کرتے تھے مجھے شرنی نیاز کی ضرورت نہیں ہے اگر نیاز کے لالچ ہو یا میں کسی سے لیتا تو پہاڑوں کی مانند پیسے و مال میرے پاس جمع ہو جاتا۔ کبھی نیاز و غیرہ کسی سے طلب نہیں کی ہے۔
آپ کی کرامت میں ایک یہ بھی تھا کہ آپ لوگوں کو گھر یہ مسجد شریف کی تعمیر کے لیے جگہ بتایا کرتے تھے۔ جو سلسلہ آج بھی جاری ہے آج بھی اسی طرح لوگ اس وقت کے گدی نشین حضرت بابا سائیں حسیں مدضلہ علیہ کو لے جاتے ہیں۔ اور گھر وغیرہ تعمیر کرنے سے قبل ان سے پوچھ لیتے ہیں۔ یا تو یہ ساتھ جاتے ہیں یا پھر ایک دوسرا طریقہ بتا دیتے ہیں کہ جگہ کے چار کونوں میں کھود کر پانی ڈالو اگر پانی دائیں طرف گومتا رہا تو جگہ ٹھیک ہے۔ میں نے بھی ان کی خدمات بہت مرتبہ حاصل کی ہے۔ اور فیضیاب ہوا ہوں انشااللہ۔
اسی سلسلہ کو شروعاتی دور میں جب لوگوں کو حضرت بابا سائیں لال دین رحمتہ اللہ علیہ نے جگہ کے متعلق بتانا شروع کیا تو اس وقت کے راجوری کے ایک بڑ ے عالم کے پاس مسلہ پہنچ گیا۔ یہ مسلہ حضرت مولانا محمد عثمان صاحب ترا لا والوں کے پاس اٹھایا گیا۔ کہ بابا صاحب اللہ کی زمین کو کہتے ہیں، کہ یہ ٹھیک ہے اور یہ ٹھیک نہیں ہے۔ کیا قرآن اور حدیث سے ایسا کو مسلہ ظاہر ہوتا ہے۔ تو مولانا صاحب نے فرمایا کہ ایسا تو کچھ بھی نہیں ہے زمین سب اللہ کی ہے جو جہاں چاہے مکان بناے جو جہاں چاہے نہ بناے۔ یہ لوگوں کو پریشان کرنے والی بات ہے کہ کسی کو جو زمین پسند ہو یا اچھی لگے اور اسے کہہ دینا یہاں مکان کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ جس سے اس آدمی کا نقصان ہوتا ہے وہ اب دوسری زمین کہاں سے لاے گا ۔ اسی دوران مولانا صاحب نے حضرت بابا سائیں لال دین رحمتہ اللہ علیہ کو پیغام بھیجا کہ آپ یہاں تشریف لائیں۔ آپ سے کچھ شریعت میں مداخلت کے لیے دریافت کرنا ہے میرے پاس سوال آے ہیں۔ بابا صاحب نے یہ پیغام سنتے ہیں ان کے گاوں ترا لا کا سفر شروع کر دیا۔ آپ جب مولانا عثمان صاحب کے گھر تشریف فرما ہوے۔ اسی دوران نماز ظہر کا وقت ہو گیا تھا۔ وہاں پر ہی مسجد شریف بھی تھی مولانا صاحب بابا صاحب سے فرمانے لگے کہ آپ سے بعد میں بات کرتے ہیں پہلے نماز پڑھ لیتے ہیں۔ مولانا صاحب نماز کے لیے مسجد میں تشریف لے گئے باجماعت نماز ادا کی گئی۔ اسی دوران بابا صاحب نماز ادا کرنے کے لیے مسجد میں نہیں گئے بلکہ باہر ہی کہیں کسی جگہ اپنی نماز ادا کی۔ مولانا صاحب نماز کے بعد بابا صاحب کی طرف زیادہ ہی مضبوطی کے ساتھ سوال اٹھانے لگے۔ آپ نے ایک باجماعت نماز ادا نہیں کی دوسرا آپ مسجد ہوتے ہوے بھی مسجد میں نہیں آے۔ بابا صاحب نے اپنے حلیمی بھرے انداز میں مولانا صاحب کی طرف متوجہ ہوتے ہوے ایک سوال ان سےکر دیا مسلہ کہ روح سے کیا کہتے ہیں علماء کرام کیا ،،قبر کے اوپر سجدہ ہو سکتا ہے یا مسجد ہو سکتی ہے اور نماز ادا کی جا سکتی ہے،، مولانا صاحب پریشان ہو گئے موجود لوگ بھی ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ البتہ اس سوال کا سیدھا جواب مولانا عثمان صاحب نے دیا کہ نہیں بالکل نہیں یہاں نہ تو مسجد تعمیر ہو سکتی ہے نہ نماز ہو سکتی ہے۔ مولانا صاحب نے کہا یہ سوال ہم سے کیوں۔ آپ فرمانے لگے مولانا صاحب،، جہاں آپ نماز ادا کر کےآے ہیں وہاں نیچے قبریں ہیں،، بابا صاحب کا یہ جواب زیادہ حیران کر دینے والے تھا وہاں موجود مجلس کے لیے شاید ان میں سے کچھ دوسرے عقیدہ کے بھی لوگ ہوں گے۔ جو ولیوں کی نگاہ اور ان کی طاقت کو اپنے علم کے پیمانے میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن مولانا صاحب بڑے عالم تھے انہون نے بابا صاحب کے اس حکم کے مطابق اور شریعت کے اندر اس مسلے کا ہل تلاش کرنا تھا۔ مسجدیں اس زمانہ میں کچی ہوا کرتی تھی مسجد کے محراب کو بابا صاحب نے کھدوایا جہاں سے قبر برامد ہوئی۔ دوسری طرف مسجد کےاندر ایک کونا کھودا گیا جس میں دوسری قبر تھی۔ یہ دیکھ کر مولانا صاحب بھی پریشان ہو گے۔ اور بابا صاحب کو تکلیف دینے اور ان سے سوال پوچھنے پر ندامت محسوس کرنے لگے۔ بابا صاحب سے معافی طلب کرتے ہوے تمام ایسے سوال کرنے والوں کو بھی پیغام دیا۔ البتہ پھر آپ واپس تشریف لے آے۔ دو بارہ کسی نے ایسے سوال کرنے کی جرت نہیں کی۔
اولیاء کرام کی پوری زندگی ہی کرامات ہوتی ہے البتہ کچھ ظاہری بتانے سے شریعت کے پابند ہوتے ہیں۔ آپ کا وصال ۸۰ سال کی عمر میں ہوا۔ آپ کے وصال کا بھی ایک عجیب قصہ ہے۔ آپ کی نماز جنازہ حضرت بابا میاں بشیر احمد لاروی مدضلہ علیہ نے پڑھایا۔ حضرت بابا لالا دین رحمتہ اللہ علیہ کے ہاں کچھ چار پانچ مہینے قبل حضرت بابا میاں بشیر احمد لاروی، صاحب تشریف لاے اور آپ فرمانے لگے 17 چیت کو میرا وصال ہو جاے گا اور میرا جنازہ آپ نے پڑھانا ہے۔ اس سے ایک روز قبل کچھ تکلیف ہوئی راجوری اسپتال اہل خانہ لےگئے لیکن واپس گھر آ گئے اپنے صاحبزادے سائیں صوفی صاحب کو فرمانے لگے آپ روئیں نہیں جاو بھینسوں کو گھاس ڈال دو پھر میں آپ کے لیے دعا کرتا ہوں۔ اسی دوران کلمہ شہادت جاری ہوا۔
اناللہ واناالیہ راجعون۔
اہلیان راجوری کو غمزدہ چھوڑتے ہوے اس دنیا سے پردہ فرما گئے۔ حضرت بابا میاں بشیر احمد لاروی، صاحب اس دن جموں میں تھے آپ کو معلوم ہوا آپ راجوری تشریف لاے آپ نے نماز ادا کروائی۔
اس کے بعد آپ کے صاحبزادے بھی گدی نشین ہوے اور اللہ کے ولی گزرے ہیں۔ یہ بھی شریعت کے پابند رہے ہیں۔ راقمالعروف بھی اکثر مرتبہ سائیں صوفی صاحب رحمتہ اللہ علیہ سے ملاقات کا شرف حاصل کرچکا ہوں۔ مجھے کھاراسوڈا پینے کو کہا کرتے تھے جس سے مجھے بہت راحت محسوس ہوتی تھی۔ اللہ اپنے حبیب کے صدقے ان ولیوں کی دست شفقت ہم پر بناے رکھے۔ اور اولیاء کرام کا احترام کرنے کی توفیق عطا فرماے۔ ہر سال بابا سائیں لال دین رحمتہ اللہ علیہ کا عرس شریف بڑی عقیدت سے منایا جاتا ہے ہزاروں کی تعداد میں لوگ تشریف لاتے ہیں۔ آپ کے خاندان کے تمام افراد آج بھی بڑی عقیدت کےساتھ لوگوں کی خدمت کرتے ہیں۔ ہر مہمان آنے والے کو لنگر شریف سے کھانا چاے لگاتار پیش کی جاتی ہے۔ آپ کے اہل خانہ کے ہر افراد کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا فیض آج بھی ان پر جاری ہے۔ میں تمام حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اولیاء کرام کی اس تحریر کو رقم کرنے میں میری مدد کی ۔
شکریہ خدا حافظ۔
لیاقت علی چودھری 9419170548