GNS ONLINE NEWS PORTAL

حضرت سیدہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یوم وصال۔

Facebook
Twitter
WhatsApp
Email

آج یعنی ۳ رمضان المبارک کو خاتون جنت زہراء ، بتول ، بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سیدنا فاطمہ زاہرہ رضی اللہ عنہا کا یوم وصال ہے۔ حضورﷺ کی پہلی زوجہ حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کی والدہ ہیں۔ آپ حضرت فاطمہ زہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا و دوسرے القاب سے مشہور ہوئیں۔ کیوں کہ آپ کا چہرہ مبارک نہایت ہی سفید اور حسین تھا۔ اس لیے زہراء کہا جاتا ہے۔ آپ کو زکیہ پاکیزہ (پاکیزہ سیرت) بھی کہا جاتا ہے۔ آپ کو راضیہ خوش بخوش بھی کہا جاتا ہے۔ بتول بھی آپ کا ہی القاب ہے۔ ام الحسنین شہید اعظم حضرت حسن و حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی والدہ بھی ہیں۔ ام الائمہ اماموں کی ماں بھی آپ ہیں۔ آپ کو ام الھاد بھی آپ کو کہا جاتا ہے۔ کریمتہ الطرفین یعنی ماں باپ کی طرف سے اعلیٰ نسب والی بھی کہا جاتا ہے۔ آج کے دن یعنی ۳ رمضان المبارک منگل کی رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری بیٹی نے اس دنیا سے پردہ فرما یا تھا۔ جس کا پیغام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان کے کان میں اس وقت دیا تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ بیمار تھے۔ اور آپ نے بیٹی کو بلایا ۔ جب حضرت فاطمہ زاہرہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچی تو اپنے نزدیک بلایا اور کان میں کچھ کہا ۔ اس وقت حضرت زہراہ رضی اللہ عنہا بہت رونے لگیں ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ برداشت نہیں ہوا تو دوبارہ پھر انہیں نزدیک آنے کو فرمایا اور آہستہ سے کچھ فرمایا ااس وقت آپ سکون ہوا اور آپ مسکرائیں ۔ حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اس وقت وہاں تشریف فرما تھیں آپ نے دریافت کرنا چاہا کہ کیا کہا ہے لیکن خاتون جنت خاموش رہیں ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا آپ نے اس دنیا سے ظاہری پردہ فرمالیا۔ تو ایک دن حضرت سیدہ فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے فرمانے لگیں آو آج میں آپ کو بتاتی ہوں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ابا جان نے مجھے کان میں کچھ کہا تھا اور آپ نے اس وقت دریافت کرنا چاہا تھا لیکن میں خاموش رہی تھی ۔ خضرت سیدہ فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا فرمانے لگیں پہلی بار مجھے کان میں فرمایا بیٹی میں بس تھوڑی دیر کے لیے آپ کے پاس ہوں ۔ اور مجھے برداشت نہیں ہوا اور میں رونے لگی ۔ پھر دوبارہ اباجان نے مجھے نزدیک بلایا تو پھر کان میں کہنے لگے کہ بیٹی میری پہلی ملاقات وصال کے بعد آپ سے ہو گی اس وقت میں بہت خوش ہوئی اور مسکرانے لگی۔ ٹھیک اسی طرح سے الگ الگ روائیتوں کے مطابق لیکن 6 مہینے والی تاریخ کو ترجیح دی ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرمانے کے بعد حضرت فاطمہ زہراہ رضی اللہ عنہ کا وصال ہوا۔
ماشااللہ کیا مقام ہے خاتون جنت کا جن کی عمر الگ الگ روائیتوں کے مطابق یا ۲۸ سال ہے یا ۳۲ سال کی عمر میں وصال ہو گیا۔ جن کہ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے ہیں۔ جو بچوں سے اتنا پیار کرتی ہیں کہ انہیں کبھی بخار ہو جاتا تو آپ تین تین دن تک صرف پانی سے ہی افطار اور سحری کے ساتھ روزہ رکھا کرتی تھی۔ لیکن آپ کی شان یہ ہے جب اپنی موت کی خبر اپنے والد محترم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتی ہیں تو خوشی سے مسکرا جاتیں ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشہیر وتکفین کے بعد صحابہ کرام تعزیرات کے لیے سیدہ فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا کے پاس آتے تھے۔ لیکن انہیں کسی پہلو قرار نہ ہوتا تھا۔ ایک دن حضورﷺ کے خادم خاص حضرت انس رضی اللہ عنہا تعزیت و تسلی کے لیے حضرت سیدہ فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوے۔ سیدہ نے ان سے فرمایا ” انس یہ تو بتاو، تمہار دل نے یہ کیسے گوارا کیا کہ رسول ﷺ کا جسد اقدسﷺ زمین کے سپرد کرو یہ سن کر حضرت انس رضی اللہ عنہہ دھاڑے مار مار کر رونے لگے اور غم و الم کا پیکر بنے ہوے واپس گئے۔ تمام اہل سیر متفق ہیں کہ رسول اکرم ﷺ کے وصال کے بعد کسی نے سیدہ فاطمہ زہراء رضی اللہ تعالی عنہا کو کسی نے ہنستے ہوے نہیں دیکھا۔
ایک دن حضرت سیدہ فاطمہ زہراء رضی الله عنہا آپﷺ کی قبر مبارک پر گئیں اور اشکبار ہو کر یہ اشعار پڑھنے لگیں۔
مَسازَ عَلٰی مَنْ شَمَّ تُرْبَتَہ اَحْمَددَ
اَنْ لَا یَشُمُّ مَدَی الزَّمَانِ غَوَالًیا
صُبَّتْ عَلَى ْ مَصَائِبُ لَوْ اَنَّھَا
صُبَّتْ عَلَى اْلْاَّیامِ صِرْنَ لَیَا لِیًا
ترجمہ جو شخص احمد ﷺ کی تربت کی مٹی ایک بار سنگ لے اس پر لازم ہے کہ پھر کبھی کوئی خشبو نہ سونگے ( یعنی اس کو ساری عمر کسی خوشبو کے سونگنے کی ضرورت نہیں) مجھ پر جومصبیتیں پڑیں اگر دنوں پر پڑتیں تو وہ راتوں میں تبدیل ہو جاتے۔ کہا جاتا ہے کہ اشعار حضرت علی رضی الل تعالیٰ عنہ کے ہیں البتہ سیدہ نے اس موقع پر پڑے۔
بعض اہل سیر نے خود سیدہ النساء رضی اللہ تعالی عنہا سے بھی کچھ اشعار منسوب کیے ہیں جو انہوں نے رسول ﷺ کی وصال پر کہے۔ ان میں چند کا ترجمہ مندرجہ زیل ہے۔
آسمان غبار آلود ہو گیا۔
آفتاب لپیٹ دیا گیا۔
دنیا میں تاریکی ہو گئی۔
نبیﷺ کے بعد زمیں نہ صرف غمگین ہے۔ بلکہ فرط الم سے شق ہو گئی ہے۔ چاہیے کہ آپ ﷺ پر مشرق و مغرب کے رہنے والے روئیں اور چاہیے کہ تمام اہل یمن اور قبیلہ مضر کے لوگ آپ ﷺ کی وفات پر روئیں۔ اے ختم الرسل! آپ ﷺ برکت و سعات کی جوئے فیض ہیں آپ پر تو قرآن نازل کرنے والے نے بھی درود سلام بھیجا ہے۔ “

آپ کی شان یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری بیٹی ہیں ۔
آپ خاتون جنت ہیں ۔ آپ شیر خدا خضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی اہلیہ ہیں۔ آپ شہید اعظم حضرت امام حسن اور حسین رضی اللہ تعالی عنہہ کی والدہ محترمہ ہیں ۔ آپ کا القاب بتول یعنی حیض سے پاک ہیں۔ آپ کا القاب زاہرہ جس کا مطلب خوبصورت چاند کی مانند ہے۔ آپ کی اعلی سحاوت یعنی مانگے والے جب کہتے نبی ﷺ کی بیٹی ہم بھوکے ہیں کھانے کو دیا جائے آپ روزے سے ہیں لیکن جو سامنے ہے اٹھا کر اس کو دے دیا خود پانی کے ساتھ افطار کرلیا۔ آپ کے پردے کا یہ عالم ہے کہ سر سے دوپٹہ سرک گیا دوبال دکھائی دینے لگے تو اللہ تعالی کے حکم سے وقت رک جاتا ہے۔ آپ کی اولاد کے اندر اللہ اور اللہ کے رسول کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کا عالم یہ ہے کہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ یزید سے مقابلہ کرتے ہوئے کربلا کے مقام پر حضرت علی اکبر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی اصغر رضی اللہ عنہ سمیت شہید ہو جاتے ہیں۔ میری قلم اس قابل نہیں کہ دین کے لیے انکی دی گئی قربانیوں کو نوک قلم بنا سکوں ۔ اللہ آپنے ان پیاروں کے بدلے میں ہمیں ہمارے گناہوں سے بخش دے۔ جب ہم آج اپنا محاسبہ کرتے ہیں تو ہمیں شرم محسوس ہوتی ہے کہ ہماری نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی اولاد پاک کی اس قدر دین کے لیے اور مسلمانوں کے لیے قربانیاں دی گئیں ہیں۔ اللہ ہمیں اپنے پیاروں کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کی توفیق عطا کرے۔ اللہ ہماری دعاوں کو مستجاب فرمائے ۔ تحریر لیاقت علی چودھری 9419170548

Poll

[democracy id="1"]

Share Market

Also Read This

Gold & Silver Price

today weather

Our Visitor

1 1 6 8 2 6
Users Today : 68
Users Yesterday : 274