تحریر خورشید۔”جانم”۔
میں نے بہت دیر سے نثر لکھنا چھوڑ دیا تھا اسکی ایک وجہ یہ تھی کہ لکھنے میں وقت بہت صرف ہوتا تھا دوسرا لوگ مصروف ہونے کی وجہ سے نثر پڑھنا کسی حد تک پسند نہیں کرتے چونکہ اس دور میں ہر شخص مصروف ھے اسلئے کہانی، قصوں،افسانوں اور ناولوں کا دور لد چکا ۔ ایک دور تھا جب یہی سب چیزیں انسان کی دلجوئی کا سامان ہوا کرتی تھیں ۔۔۔۔قارئین کے مزاج کو دیکھتے ہوئے ادیبوں کو پرانی روِش کو چھوڑتے ہوئےقصے کہانیوں سے ہٹ کر مِنی افسانوں پر اکتفا کرنا پڑا جبکہ چند ادیبوں نے اپنی بات کو دوسروں تک پہنچانے کے لئے شاعری کا سہارا لیا چونکہ اس میں نہایت اختصار کے ساتھ اپنی بات بیان کرنے کی بڑی گنجائش موجود رہتی ھے۔۔۔۔
مگر آج میں نے حالات کے پیشِ نظر سوچا کہ لوگ اپنے گھروں میں بڑی فرصت کیساتھ بیٹھے ہیں کیوں نہ انکی تفریح طبع کا سامان پیدا کیا جائے اور پھر جب سے ہماری ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر کے مرکزی زیرِ انتظام لایا گیا ھے تب سے آئے دن ایسے واقعات رونما ہوتے ہی رہتے ہیں جو کسی قصہ یا کہانی کےلئے بہتر پلاٹ ثابت ہو سکتے ہیں ۔۔۔۔۔
آج میں بیٹھا یہ سوچ ہی رہا تھاکہ اب کیا لکھا جائے کہ اچانک حالیہ رونما ہونے والےواقع پر مجھے ایک محاورہ یاد آگیا اور طالب علمی کا وہ زمانہ یاد آیا جب استاد ہمیں اپنی درسی کتب میں لکھے ہوئے محاوروں کو یاد کرنے اور انہیں جملوں میں استعمال کرنے کو کہتے تھے اسی لئے محاورے میرے ذہن میں یوں وارد ہوئے جیسے الہام ہوا ہو۔۔۔
ان میں سے کچھ محاورے یوں ہوا کرتے تھے۔۔۔”دل باغ باغ ہونا” “بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا” “جس کی لاٹھی اس کی بھینس ” ” اب کیا پچھتائے ہوت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت” وغیرہ وغیرہ مگر آج کے حالات کے عین مطابق جو محاورہ ۔مجھے سب سے ذیادہ موزوں لگا وہی آج کی اس کہانی کا عنواں بنا۔۔۔۔” وہ ھے
” بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی”
مجھے یاد ھے جب دہایوں پہلے میرے ایک شفیق استاد نے اس محاورے کو جملے میں استعمال کرنے کو کہا تھا تو ۔میں بے حد پریشان ہوگیا تھا کہ آخر اسکا مطلب کیا ہوسکتا ھےاستاد میری پریشانی کو بھانپ گئے اور میں نے بھی بڑی جراءت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان سے پوچھ ہی لیا کہ آخر اسکے معانی کیا ہیں؟؟؟
استاد نے بڑی خوش اسلوبی سے سمجھاتے ہوئے یوں کہا کہ اگر کسی کے گھر چور چوری کرنے کی غرض سے داخل ہوجائے اور گھر کے افراد سو رہے ہوں اور چور مال چوری کرکے دبے پاؤں جارہا ہو اور گھر کے مالک کی آنکھ کھل جائے اور وہ اسکے پیچھے سے اسے پکڑنے کیلئے بھاگے اور چور کی لنگوٹی اسکے ہاتھ آجائے اور چور مال لیکر فرار ہوجانے میں کامیاب ہو جائے اور مالک کے ہاتھ صرف اس چور کی لنگوٹی ہی آئے اور وہ اسی میں خوش ہو کہ چلو اور کچھ نہیں تو چور کی لنگوٹی تو ہاتھ لگی۔ یقین جانئے ایک وہ وقت اور ایک یہ وقت جب کبھی بھی ایسا کوئی واقع پیش آجاتا ھے تو میں اس محاورے کو اس تازہ واقع کے ساتھ جوڑ کر دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔۔۔۔
پانچ اگست ۱۹ء کو گویا ہماری ریاست پر ہمارے نا عاقبت اندیش اور نام نہاد راہنماؤں کی وجہ سے ایک آفت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا جب اسکا ریاستی درجہ کم کرکے دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا اور اسکی ساری مراعات اور حقوق سلب کردئے گئے آزادی سے قبل محض دو ریاستیں ایسی تھیں جہاں حقیقی معنوں میں سیکولرازم قائم تھا ایک حیدر آباد ریاست جہاں اکثریت ہندوؤں کی تھی مگر راجہ مسلمان تھا اور دوسری خود مختار ریاست جموں و کشمیر جس میں اکثریت مسلمانوں کی تھی مگر راجہ ہندو )ڈوگرہ) تھا۔
آزادی سے ۲۰ سال قبل راجہ نے ایک ایسا قانون وضع کیا تھا جو بالخصوص یہاں کی عوام کو بلا امتیاز مذہب و ملت،رنگ و نسل ایک یقینی تحفظ فراہم کرتا تھا جسے بعد ازاں آزاد ہندوستان کے صدر نے آذادی کے سات سال بعد مزید مستحکم کیا جبکہ اس ریاست کا اپنا آئین، اپنا جھنڈا، خصوصی مراعات اور راجہ کا بنایا ہوا قانون جسے” رنبیر پینل کوڈ” کے نام سے جانا جاتا تھا موجود تھا، اسکا اپنا وزیرِ اعظم اور اپنا صدر منتخب کرنے کا حق حاصل تھا۔آزادی کے فوراّّ بعد ریاست حیدرآباد کو ملک کے ساتھ ضم کرلیا گیا جبکہ ریاست جموں و کشمیر ایک تاریخی المیے سے دوچار ہوئی مگر چند وہ حقوق جو وضع کردئے گئے تھے جن میں باشندہ ریاست کی سند، روزگار اور جائیداد کے حقوق خصوصی اہمئت کے حامل تھے جو ۵ اگست ۱۹ء تک برقرار تھے بالآخر ۳۱ مارچ ۲۰۲۰ء کو انھیں بھی از سرِ نو ترتیب دے کر یکم اپریل ۲۰ء کو اجراء کیا گیا مگر عوامی غم و غصہ کے پیشِ نظر ۲۴ گھنٹوں کے اندر ہی دوبارہ مزید کچھ ترامیم کرکے لاگو کر دیا گیا مگر اب کی بار عوامی ردِ عمل ملا جلا رہا کچھ نے اسے اپنی فتح قرار دیتے ہوئے اپنی سیاست کو گرم کیا اور کچھ نے سماج کی مجموعی جیت قرار دیا مگر ایک طبقہ ابھی بھی ایسا ھے جو یہ کہہ رہا ھے کہ ہمارا مکمل حق جو ہمیں حاصل تھا ہمیں واپس لوٹا دیا جائے وہ ہمارے روزگار کا حق ہو یا زمین جائداد کا۔۔۔۔اسی تذبذب کی حالت کو دیکھ کر مجھے وہ محاورہ بار بار یاد آتا ھے کہ گھر کا سامان تو گیا مگر لنگوٹی حاصل کرنے میں ہم کامیاب ضرور ہوگئے ہیں۔۔۔سیاسی قیادت تو رہی نہیں، جو کوئی اس بات کے دعویدار ہیں ان میں دور اندیشی کا فقدان ھے، میں تب بے حد حیران ہوا جب ایک سیاسی رہنما سات ماہ قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے کے بعد 4G انٹرنیٹ کی بحال کرنے کی درخواست کرتا ہوا دیکھا گیا۔۔۔۔افسوس صد افسوس “کیا کِیا خِضر نے سکندر سے ۔۔۔۔۔اب کسے رہنما کرے کوئی” نوجوان نسل اپنے آپ کو بے یار و مدد گار محسوس کر رہی ھے اور ایک عجیب سی صورتحال پیدا ہوچکی ھے ۔۔۔۔
ہاں مجھے یاد آیا کہ میں نے اپنی بات ایک محاورے سے شروع کی تھی اب دہائیوں بعد میں نے اس کے معانی کو حقیقت میں بدلتے دیکھا اور اس بات کا احساس ہوا کہ واقعی ایسے ہی حالات کے پیش نظر ہی یہ محاورہ معرضِ وجود میں آیا ہوگا۔۔۔۔اب ذہن اس کشمکش میں مبتلا ھے کہ آیا اس سارے معاملے کی رپٹ کہاں درج کروائی جائے تاکہ گھر کا چوری شدہ سارا سامان برآمد کروایا جاسکے یا پھر با دلِ ناخواستہ اسی لنگوٹی پر ہی اکتفا کر لیا جائے۔۔۔۔۔فیصلہ ریاست کی عوام کو بلا لحاظ مذہب و ملت، رنگ نسل،ذات پات، علاقہ، زباں اور برادری کے بالخصوص آنے والی نوجوان نسل کو کرنا ھے مگر “عدمِ تشدد کا راستہ اختیار کرتے ہوئے” اپنے ان حقوق کو بحال کروانا ھے جو ہماری بقاء اور شناخت کےمضمر ہیں اور اس بات کا خاص خیال رکھتے ہوئے کہ کہیں ہمارا صدیوں سے قائم آپسی بھائی چارہ ،ہمارا تمدّن ہماری ثقافت، ہماری شناخت اور ہماری زبان کو کوئی زک نہ پہنچے۔۔۔۔۔۔۔۔آج اتنا ہی، بعد ازیں کسی دوسرے محاورے کو موضوع بنا کر آپ سے مخاطب ہونے کی کوشش کروں گا ،اس امید کے ساتھ کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“اندازِ بیاں گرچہ میرا۔۔۔۔۔۔۔ شوخ نہیں ھے
شائد کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات”
حوصلہ افزائی کیلئے اپنی رائے سے ضرور نوازنے کی سعیء کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر خورشید۔”جانم”۔