بِسمِ اللہِ الرَ٘حمٰنِ الرَ٘حِیمِ
اَلَا اِنَاولیااللہ لَا خُوفُُ عَلَیہِم وَلَا ھُم یَعزنَون۔” القرآن “
ولیِ کامل حضرت بابا گنجی بادشاہ رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ
ولی کون؟ جو صرف اللہ کا ہی زکر کرے، اللہ زکر سے کبھی نہ تھکے، جو دل نور جلال الہی کی معرفت میں مشغول ہو، جب دیکھے دلائل الہی کودیکھے، اللہ کہ آیتیں ہی سنے، ہمیشہ رب کی ثنا ہی بولے، حرکت بھی طاعت الہی سے ہی کرے، کوشش بھی زریعہ الہی سے کرے، جب یہ حال ایک اللہ کے بندے کاہوتا ہے تو پھر اللہ اس بندے کا مددگار ہوتاہے۔ بلا شعبہ اولیاء نبیوں کے وارث ہیں، دین و دنیا میں ان کی زندگی عام لوگوں کےلیے ایک اعلی نمونہ اور مثال ہوتی ہے۔ اولیاء اللہ اعمال،افعال، اقوال و اشغال میں اس قدر معتات اور رضا الہی کے پابند ہوتے ہیں کہ اللہ تعالی ان مقربین کے لیے اپنی رحمت وسیع فرما دیتا ہے، اور اللہ تعالیٰ ان کے خوف و ملال بھی دور فرما دیتا ہے۔
اپنے اپنے عہد میں ہر ولی اللہ اُس دور کی تقاضوں کے مطابق دین کی حفاظت، تبلیغ اور تشہیر کےلیے وہ اپنے تن من دھن کی بازی لگا دیتا ہے۔ اللہ تعالی نے اپنے اولیاء کرام سے زمانے کی سیاست اور ملت کی امامت کا کام لینا ہوتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالی بچپن سے ہی اپنے ان بندوں کو اپنا قرب عطا فرماتا اور ان کے کردار و عمل کی تشکیل فرماتا ہے۔
انہیں اولیاء کاملین میں حضرت بابا گنجی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ بھی ایک ہیں۔
آپ کا نام حضرت بابا سائیں فتح محمد عرف سائیں بابا گنجی رحمتہ اللہ علیہ ہے۔ آپ کی پیدائش کی تاریخ نامعلوم ہونے کی بنا پر بتائی نہیں جا سکتی ہے۔ آپ کی روزانہ بولی جانے والی زبان اردو ہے۔ آپ راجوری کے ایک ولی کامل گزرے ہیں۔ آج آپ کا مزار درہال سے راجوری کو جوڈنے والی شاہراہ پر ایک اونچے مقام گاوں ڈنہ، ایتی ، نینسُخ کے درمیان درخشندہ و تابندہ ہے۔ جہاں سے آپ آج بھی راجوری کی عوام کی رہنمائی فرماتے ہیں۔ کیوں کہ اولیاء کی قبریں عوام کے دلوں پر حکومت کرتی ہیں۔ آج ہزاروں کی تعداد میں لوگ حضرت بابا گنجی رحمتہ اللہ علیہ کی درگاہ پر حاضری دیتے ہیں۔ اور اللہ کے ان برگزیدہ اولیاء کے وصیلہ سے اپنی مرادیں پاتے ہیں۔
اللہ کے ولی کی حیات اور پردہ فرمانے کے بعد بھی بہت سی کرامات سامنے ہوتی ہیں۔ جس کی بنا پر لوگ انہیں یہ مقام دیتے ہیں کہ یہ اللہ کے پیارے بندے ہیں اور اللہ ان کی اپیل سنتا اور مانتا ہے۔ کیوں کہ یہ اللہ کے عشق میں فنا ہوے ہوتے ہیں۔ انہیں اس دنیا سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ ان کی زندگی کا مقصد بس اللہ کی عبادت اللہ کی حمدو ثناء ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اللہ کا قرب حاصل کرتے ہیں۔ حضرت بابا گنجی رحمتہ اللہ علیہ تعلیم کے لیے لاہور گے۔ لیکن جلد ہی واپس آ گئے ۔ بابا صاحب پنجاب کے دینہ شہر میں فوج کی بھرتی کے لیے پہنچے وہاں انہیں اس بھرتی میں کامیابی مل گئی۔ اس کے بعد ان کی فوج کی یہ ٹکڑی ملک سری لنکا کے لیے روانہ کی گئی۔ وہاں پر یہ آپے سے باہر ہوتے ہوئے دکھائی دینے لگے۔ انہوں نے اپنی وردی اتار کر پھینک دی۔ اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرنے لگے۔ فوج کے اعلی آفیسران نے انہیں قابو میں لانے کے لیے کوارٹر گارڈ میں رکھنے کے احکام صادر کردیے۔ جب انہیں اس کمرے میں بند کرتے تو یہ اللہ ھو کی ایک ضرب لگاتے تو اس کوارٹرگارد کے کمرے کا تالا کھل جاتا۔ سنتری نے بار بار یہ واقعہ پیش آنے پر دوبارہ اعلی احکام تک بات پہنچائی۔ تب انہوں نے انہیں نوکری سے ڈسچارج کر کہ بھیج دیا۔ اب نہ جانے ان کی واپسی کا سفر کیسے تہہ ہوا۔ یہ اس کے بعد سیدھے لارشریف وانگت کی درگاہ پر پہنچ گے۔ وہاں پر بھی آپ کے بہت سی کرامات منظرعام پر آنے لگیں۔ ایک بار کا ذکر ہے کہ آپ گھوڑے کے ساتھ کہیں چرا رہے تھے۔ جو خچر آپ کے ساتھ تھی یہ بھی اللہ کا ذکر کرنے لگی۔ جس کا تذکرہ بہت جگہ درج ہے۔ لار شریف میں ہی ایک اور واقعہ بھی پیش آیا ایک بار کا ذکر ہے کہ ایک سانپ نمودار ہوا۔ جس نے بابا گنجی رحمتہ اللہ علیہ کو کاٹ لیا۔ اس کے فوراً بعد یہ سانپ مر گیا۔ اس سانپ کی ایک قبر بھی وہاں پر بنائی گئی ہے۔ کچھ دیر کے بعد یہ واپس اپنے گاوں فتحپور تشریف لے آے۔ یہاں پر ہی تمام عمر گزاری اور بہت لوگوں کی لاچاریاں ، بیماریاں اور دین کا راستہ دکھانے کے لیے اللہ کے اس ولی نے لا مثال کام کیا۔ یہاں پر حضرت بابا سائیں لال دین رحمتہ اللہ علیہ جو بابا گنجی صاحب کے بھتیجا تھے۔ یہ بہت چھوٹی عمر میں تھے جب والد صاحب کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ بابا صاحب نے ان کی پرورش کرنی شروع کر دی۔ اس کے بعد تا حیات سائیں لال دین رحمتہ اللہ علیہ نے بابا گنجی رحمتہ اللہ کی خدمات سر انجام دیں۔ ان سے بے پناہ محبت رکھتے تھے۔ آخری سانس بھی ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے ہوے مالک حقیقی سے جا ملے۔ بابا گنجی رحمتہ اللہ علیہ سعادت کرام کی بہت ہی عزت کرتے تھے۔ ان کا ان کے ساتھ بہت لگاو رہا ہے.
ایک بار کا زکر ہے کہ حضرت مولانا ولائت شاہ صاحب ہمراہ سائیں لال دین صاحب کے شفا پانی پر پہنچے جہاں بابا گنجی رحمتہ اللہ علیہ تشریف فرما تھے۔ یی دیکھتے ہیں کہ بابا گنجی صاحب چیونٹی میں ایک بڑے قد رکھنے والا (مکوڑے) کے نام سے جانا جاتا ہے, آپ زمین سے اٹھا کر کھاے جارہے ہیں۔ جب انہیں دیکھا فرمانے لگے پیر مرشد آو آپ بھی کھائیں گے۔ ان حضرات کو بھی اٹھا کر دیے انہوں نے اپنی اپنی مٹھی میں بند کر لیے اس کے بعد یہ جو چیونٹیوں( مکوڑے) کے قطار لگی ہوئی تھی بند ہو گئی۔ وہاں ہی بابا گنجی صاحب زمین پر لیٹ گئے ۔ تھوڑا دور جا کر سید ولایت شاہ صاحب اور سائیں لال دین عرف سائیں لالہ صاحب مٹھی کھول کر دیکھنے لگے۔ تو ان کے ہاتھ میں کشمش یعنی (ساوگی) کے دانے تھے۔ انہوں نے یہ ساوگی کےدانے کھا لیے۔ جب بابا صاحب کی آنکھ کھلی تو فرمانے لگے پیر مرشد ہم تو بےحوشی میں مکوڑےکھا رہے تھے۔ آپ نے بھی کھا دیے۔ مولوی صاحب کو ایک مرتبہ بابا گنجی صاحب نے دو روپیہ دیے۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے مولوی صاحب کو بڑا صاحب جایداد بنایا۔ مولوی صاحب سائیں صاحب کو اکثر کہتے تھے آپ نماز نہیں پڑھتے ہیں۔ ایک دن مسجد میں آ گے مولوی صاحب جماعت کے لیے آگے کھڑے تھےآخری رکعت میں مولوی صاحب کو کہیں خیال آیا کہ شاید گھوڑی کھل گئی ہو گی۔ پیچھے سے سائیں گنجی رحمتہ اللہ علیہ صف توڑ کر ادھر اُدھر مسجد میں گھوم رہے ہیں۔ نماز کے بعد لوگ کہنے لگے بابا صاحب آپ نماز چھوڑ کر چکر لگا رہے ہیں۔ بابا گنجی کہنے لگے امام صاحب اللہ کو چھوڑ کر گھوڑی کی طرف متوجہ ہو گئے تھے ہم نے بھی انہیں چھوڑ دیا۔ فرمانے لگے پیر مرشد دوبارہ نماز پڑھائیں۔
ایک دوسرا واقعہ آپ کی کرامت کا پیش کرتا ہوں۔ پٹھیاں گردھن کا رہنے والا چلا نامی ایک شخص تھا۔ جو کوڑ کی بیماری میں مبتلا ہو گیا تھا۔ اسے لوگوں نے بھی چھوڑ دیا کیوں کہ اس وقت یہ لاعلاج بیماری تھی۔ اپنی بیوی نے بھی چھوڑ دیا۔ یہ شخص مجبور ہو کر مرگاں والے حضرت سائیں لال دین رحمتہ اللہ علیہ کے دربار میں حاضر ہوا۔ سائیں صاحب نے اسے علاج کے لیے دو ٹین مٹی کا تیل پینے کے لیے حکم فرمایا۔ اس وقت غربت کی وجہ سے یہ بھی میسر نہیں تھا۔ حالانکہ سائیں صاحب کے اس مٹی کےتیل سے بہت دنیا ایسی مرض سے شفا پائی تھی۔ یہ شخص پریشانی کے عالم میں شفا والے پانی پر خاضر ہوا۔ اس کے بعد نیچے جہاں بابا گنجی رحمتہ اللہ علیہ کا آٹے والا گھاٹ تھا وہاں ایک مائی رہتی تھی اس نے اس شخص کو لسی کے ساتھ روٹی دی۔ دریا کی طرف کھانے کے بعد یہ شخص بے حوش ہو گیا۔ اسی عالم میں اسے خواب میں بابا گنجی رحمتہ اللہ علیہ تشریف لاتے ہیں اور اسے فرماتے ہیں۔ َ” چاٹ اس کو” اس شخص کی آنکھ کھلتی ہے تو یہ دیکھتا ہے کہ ایک بہت بڑا سانپ ہے جس کا سر دور تک نظر نہیں آتا ہے نہ اس کی دُم کہیں ہے۔ یہ بہت ڈر گیا لیکن اس نے ہمت کر کے اس کو چاٹ لیا۔ چاٹنے کےفوراً بعد اسے دست اور اُلٹیاں شروع ہو گئیں۔ تین دن تک یہ جاری رہیں۔ تین دن کے بعد یہ پھر بے خوش ہوگیا اسے دوبارہ بابا گنجی صاحب خواب میں آئے کہنے لگے جا دریا میں نہا سب ٹھیک ہو گیا ہے۔ یہ شخص نہانے کے بعد باہر نکلا دیکھتا ہے کہ پوری طرح ٹھیک ہو گیا ہے۔ جس جگہ یہ ذخم تھے وہاں صرف نشان نظر آرہے ہیں۔
بابا گنجی کے وصال کے چند سال قبل کا واقع ہے۔ 1930کے قریب ایک پیر صاحب جو کشمیر کے رہنے والے تھے جن کانام سید نثار حسین صاحب تھا۔ جو ملازمت کے لیے یہاں راجوری تشریف لاے تھے۔ یہ پٹواری تعینات تھے ۔ جن کا پٹوار حلقہ راجوری سے سندربنی ٹھنڈا پانی تک محدود تھا۔ مہاراجہ کہ اس دور میں کسی بھی کالے شخص کو بڑے سرکاری عہدے پر فائز نہیں کیا جاتا تھا۔ اس دوران اس محکمہ کا سربراہ معتمد (سیکریٹری) کہلاتا تھا۔ جو ریاسی میں بیٹھتا تھا۔ ایک دن اس نے ٹھنڈا پانی کادورہ رکھا۔ اس روز پٹواری نثار شاہ صاحب کشمیر میں تھے۔ وہ اس دورے کے دوران غیر حاضر پاے گئے۔ معتمد نے انہیں نوکری سے برطرف کر دیا۔ جب شاہ صاحب واپس آئے تو اس وقت کوئی بھی شخص رہنمائی کے قابل نہیں ہوتا تھا نہ ہی کوئی پرسان حال ہوتا تھا۔ یہ ادھر ادھر بہت گھومتے رہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ یہ ایک دن بابا صاحب کے پاس آے۔ پہلے سے ہی وہاں حضرت سائیں لالہ صاحب بھی موجود تھے۔ بابا صاحب پوچھنے لگے یہ کون ہیں سائیں لالہ صاحب فرمانے لگے یہ پیر نثار شاہ صاحب ہیں یہ راجوری کے پٹواری ہیں۔ بابا گنجی جو ہمیشہ اردو بولتے تھے۔ سائیں لال دین صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے پہلی بار انہیں گوجری میں بات کرتے دیکھا۔ بابا گنجی فرمانے لگے پیر مرشد تم تحصیلدار بن گیا راجوری گا۔ پیر صاحب کہنے لگے میں گھر گیا تھا پیچھے سے معتمد صاحب نے مجھے نکال دیا ہے۔ غصہ میں بابا گنجی رحمتہ اللہ فرمانے لگے پیر مرشد جاو ہم نے آ پ کو تحصیلدار بنا دیا ہے۔ یہ پھر اصرار کرنے لگا۔ بابا صاحب میرے لیے کچھ کرو میں نوکری پر واپس جانا چاہتا ہوں۔ پھر انہوں نے فرمایا جا ریاسی تجھے تحصیلدار بنا دیا۔ انہیں یقین نہ ہوا البتہ یہ پیر صاحب ریاسی پہنچے معتمد صاحب سے ملنے جمعدار کو بولا مجھےصاحب سے ملنا ہے۔ جمعدار اندر اجازت لینے گیا۔ فوراً بولا اس کو لاو میرے پاس پیر صاحب حاضر ہوے معتمد صاحب کہنے لگے۔ آپ نے ایسی کون سی سفارش کی ہے میں نےتجھے نوکری سے نکال دیا تھا اور تو نے اپنا آرڈر تحصیلدار کروا لیا ۔ اس دور میں یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ جب کہ کوئی بھی یہاں کا بڑے سرکاری عہدے پر فائز نہیں ہو سکتا۔ البتہ پٹواری صاحب نے جب وہاں بھی یہ خبر سنی انکی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا انہوں نے تمام ماجرا حاکم کو سنا دیا۔ اس نے بھی اللہ کے ولی کی کرامت کو اپنی ننگی آنکھوں سے دیکھتے ہوے ان سے ملاقات کے لیے پیر نثار صاحب جو اب تحصیلدار بن چکے تھے۔ ان کو اپنی عرضی پیش کی۔ کیوں کہ معتمد صاحب کو کوئی بھی اولاد نہ تھی۔ یہ اپنی عاجزی لیے مٹھائیاں وغیرہ لے کر روانہ ہو گے۔ معتمد صاحب کا دورہ ہو تو علاقہ میں سنسنی پھیل جاتی ہے۔ البتہ یہاں پیغام پہنچایا گیا اوجھان ایک مرزا صاحب کو کہ آپ معتمد صاحب کے رہنے کا انتظام کریں۔ غربت کے اس دور میں ان کا انتظام جس میں سو پچاس لوگوں کے کھانے کا بندوبست بھی ہوتا ہے نہایت ہی مشکل تھا۔ البتہ جب بات بابا گنجی رحمتہ اللہ علیہ کےپاس پہنچی تو آپ نے فرمایا ” کوئی بات نہیں ایک مرغا بناے گے چاول بھی بناے گے کھائیں گے” جب یہ معتمد صاحب فلیانہ پہنچے جو راجوری سے چار کلومیٹر دور ہے اپنی عقیدت کو دیکھتے ہوے انہوں نے اللہ کے ولی کے دربار میں حاضری سے پہلے اپنے جوتے اتار دیے۔ جب یہ بابا گنجی رحمتہ اللہ علیہ کے دربار پہنچے ایک مرغا جو ایک ہانڈی میں دو سیر چاول علحیدہ علحیدہ تیار تھے۔ ان کے ہمراہ ۸۰ سے زیادہ لوگ تھے۔ سب نے پیٹ بھر کھانا کھایا۔ جب بابا گنجی صاحب نے پوچھا سب نے کھا لیا ہے۔ اس کے بعد ان دونوں ہانڈیوں کو توڈ دیا گیا۔ اس کے بعد بابا گنجی رحمتہ اللہ علیہ مٹھایاں لے کر ادھر ادھر چکر لگانے لگے۔ اور فرمانے لگے اللہ سے مانگ کر ایک بچہ لیا ہے جس کا نام زوالقرنین رکھا ہے۔ معتمد صاحب بہت خوش ہوے۔ تو اس طرح جو اُس وقت غیر مسلم تھا ان کے گھر یہ بچہ پیدا ہوا بعد میں یہ بھی مسلمان ہوگے۔ 1947میں ناجانہ یہ کدھر گئے۔
قصہ موجودہ گدی نشین قبلہ سائیں عبدالرشید صاحب کے والد محترم جناب سائیں لال دین رحمتہ اللہ علیہ کی شادی کا بابا گنجی بادشاہ نے ان کی پرورش کے بعد شادی کے لیے گاوں میں ایک جگہ تجویز کر کہ رشتہ تہہ پایا۔ اور حکم کیا کہ زیادہ کچھ نہ کیا جاے مختصر رسوم ادا کی جاے۔ اسی حساب سے لڑکی والوں نے شادی کی تیاری کی جس میں دس لوگ برات کےساتھ آئیں گے اور چند دوسرے جو اپنے گھر و رشتہ دار ہوں گے۔ مفلسی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نےسبھی گھروں سے مانگ کر پندرہ مٹی کی رکابیاں اکٹھی کیں۔ البتہ لوگوں نے لڑکی والوں کو دکھانے کے لیے عین وقت پر بارات کے لیے ایک سو سے زیادہ لوگ جمع ہو گئے۔ اتنے میں لڑکی والوں کے ہوش اُڑ گئے اور دوڑتے ہوے بابا گنجی رحمتہ اللہ علیہ کے دربار پہنچے۔ اور یہ ماجرا بیان کیا آپ نے فرمایا کوئی بات نہیں یہ میری چادر لے جاو جو کھانا بنا ہے اس کے اوپر ڈال دینا اور دو لوگوں کو حکم دیا کہ آپ دیتے رہنا چادر نہیں ہٹانا۔ اسی طرح دو سو کے قریب لوگوں نے کھانا خوب سیر ہو کر کھایا۔ اعلان ہوا کوئی ہے کھانے والا اس کے بعد چادر ہٹائی دیکھا سالن اور چاول ختم ہو چکے تھے۔
حضرت بابا گنجی رحمتہ اللہ علیہ کی وصال کی بھی سہی تاریخ کہیں درج نہیں ہے البتہ سال ۱۹۳۴-۳۵ میں ہوئی ہے۔ آپ نے پہلے دن سات باولیوں کا پانی جمع کرویا دو مٹکے بھر کر رکھے۔ شام کے بعد آپ اپنے بھتیجے حضرت سائیں لال دین رحمتہ اللہ علیہ سے فرمانے لگے۔ ہم چلے جائیں تو آپ کیا کریں گے۔ یہ بڑے غمگین ہو گئے تو بابا گنجی صاحب ان کا دل رکھنے کے لیے فرمانےلگے کوئی بات نہیں ہم ایک کھڑکی رکھ لیں گے جہاں سے روز باتیں کیا کریں گے۔ البتہ اس رات کو ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے ہوے سو گے۔ ناجانہ کس وقت اپنے مالک حقیقی سے جا ملے سحری کے وقت سائیں لال دین صاحب کی آنکھ کھلی دیکھتے ہیں کہ ان کا ہاتھ بابا گنجی رحمتہ اللہ علیہ کے ہاتھ میں ہے ۔ لیکن کوئی جنبش نہیں ہے۔ انہیں معلوم ہو گیا کہ جو رات کو فرمایا تھا وہ حقیقت تھی۔ جو پانی پہلے روز منگوایا تھا اسی سے غسل پہلے روز بھی کیا اور دوسرے روز بھی کیا دو دن لگ گے آپ کو سپرد خاک کرتے ہوے۔ اس سے قبل کوئی تجویز نہیں تھی کہ آپ کو دفن کہاں کیا جاے گا۔ شہر کے لوگوں کی بھی بہت عقیدت تھی آپ کے ساتھ پہلےروز جنازہ لیے شہر کی طرف نکلنے لگتے تو آگے اندھیرا چھا گیا۔ راجوری کے تمام بڑے نامی لوگ جمع ہو گے۔ مرحوم مرزا محمد حسیں صاحب فرمانے لگے ادھر جنگل ہے ہم شہر میں جو اس وقت آرمی زیر قبضہ قبرستان ہے اس میں سائیں صاحب کوسپرد خاک کریں گے۔ لیکن یہ ممکن نہیں ہو سکا۔ جگہ تہہ کرنے کے لیے کرہ اندازی کی گئی ۔ جس میں ایک بار فتح پور اور دو بار جس جگہ آج ان کا مزار ہے نام آیا۔ اس جگہ نہایت ہی گنا جنگل تھا۔ بڑی مشکل سے جگہ تیار کی گئی۔ اس وقت کے ایک بڑے عالم جو مولوی ولایت شاہ صاحب و تمام دوسرے وقتی علماء کےاستاد تھے جناب مرحوم مولانا عثمان رحمتہ اللہ علیہ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ آج اس جگہ ایک عالیشان مزار دور سے دکھائی دیتا ہے۔ جسے موجودہ گدی نشین جناب سائیں عبدالرشید صاحب مدظلہ علیہ نے ازسرنو تعمیر کرویا ہے۔ یہاں ہر آنے والے مہمان کے لیے کھانا تیار ہوتا ہے یہاں کی مشہور لسی اور مکی کی روٹی و ہر قسم کا من پسند کھانا ۲۴×۷ ملتا ہے۔ سائیں عبدالرشید صاحب ایک بلند اخلاق اور عاجزی میں رہنے والے عظیم شخصیت کے مالک ہیں۔ زیارت کی تمام دیکھ دیکھ و ۱۸ اسوج کا بابا گنجی رحمتہ اللہ علیہ کا سالانہ عرس بڑی شان سے ہر سال مناتے ہیں۔ ریاست ہی نہیں بلکہ بیرون ریاست سے بھی لوگ اس عرس میں تشریف لاتے ہیں۔ یہ عرس دو دن تک چلتا ہے۔ دوسرے روز دُعا ہوتی ہے۔ اس عرس میں دن بھر ہزاروں کی تعداد میں عقیدتمند حاضری دیتے ہیں۔ ان بلند مقام ہے ان کی زندگی کی اسلام کی اشاعت وتراویج کے لیے کاموں کو میں کیا اور میری حقیقت کیا کہ جو ان کی صفات بیان کر سکوں۔ راقمالعروف نے جلدی میں یہ چند اوراق تحریر کیے ہیں ۔ جس قدر سائیں صاحب کی زندگی کے ایک دو پہلوں کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے اللہ تعالی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے اور اپنے ولی کی خاطر مجھے تمام گناہوں سے معاف فرماے اور سہی طریقہ سے دین پر چلنے کی توفیق عطا فرماے۔
تحریر لیاقت علی چودھری۔ 9419170548