Day: June 13, 2020

  • ہاتھی کی ذات

    ہاتھی کی ذات

    افتخار گیلانی

    اردو زبان کے مزاحیہ شاعر مر حو م ساغر خیامی نے کیا خوب کہا تھا۔

    نفرتوں کے دور میں دیکھو کیا کیاہوگیا
    سبزیا ں ہندو ہیں، بکرا مسلمان ہوگیا

    شاید ان کو خود بھی یہ اندازہ نہیں رہا ہوگا کہ 2008 میں انکی وفات کے بعد ان کا یہ شعر اتنی جلد بھار ت کے حالات کی اس قدر صحیح عکاسی کریگا۔ سبزیوں کے علاوہ اب تو بندر اور ہاتھی بھی ہندو بنائے گئے ہیں، جن کو گزند پہچانے کی تاک میں خونخوا رمسلمان ہمہ وقت تیار بیٹھے رہتے ہیں۔ لہذا ان کو بچانے کےلئے مسلمانوں کے سروں پر پروپگنڈہ و نفرت کی تلوار لٹکا کے رکھو۔حال ہی میں جنوبی صوبہ کیرالا میں ایک ہتھنی کی موت کو بہانہ بناکر فرقہ پرستوں نے مسلمانوں کے خلاف خوب زہر افشانی کی۔ فلم اسٹار، کھلاڑی، سیاستدان نیز ہر معروف و غیر معروف شخص میدان میں آکر ہتھنی کی موت پر غمگین تھا اور سوگ منا رہا تھا۔ کسی بھی مخلوق کو چاہے وہ انسان ہو یا بے زبان جانوار کو ایذا دینا جائز نہیں ہے ۔ مگر کاش ہتھنی کی موت پر سوگوار یہ حضرات کچھ ایسی ہی ہمدردی دہلی فسادات کے مظلوم و مقہور مہلوکین، پیٹ پیٹ کر مارے جانے والے اخلاق حسین اور لاک ڈاون کے شکار مزدوروں کے تئیں بھی دکھاتے، تو اس ہمدردی کی قدر و منزلت بھی بڑھ جاتی۔ حال ہی میںٹی وی چینلوں پر دہلی ۔جے پور قومی شاہراہ پر بھوک سے بے حال ایک مزدور کو ایک مردہ کتے کا گوشت کھاتے ہوئے دیکھ کر بھی ان کا ضمیر نہیں جاگا۔

    چونکہ اس ہتھنی کی موت کیرالا کے مسلم اکثریتی ضلع مالا پورم کے ایک دریا میں ہوئی تھی، تو مسلمانوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کا موقع کیسے گنوایا جاتا۔ جب تک یہ پتہ چلا کہ اس ہتھنی نے مالاپورم میں نہیں بلکہ ہندو اکثریتی پال گھاٹ علاقے میں پٹاخوں سے بھرا انناس کھایا تھا ، جس سے اسکا منہ زخمی ہوا، تب تک فرقہ وارانہ ماحول بن چکا تھا۔ سوشل میڈیا پر یہاں تک لکھا گیا کہ چونکہ ہاتھی ہندوں کی ایک مذہبی علامت ہے، اسلئے مسلمانوں نے اس کو مارا۔ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کی ممبر پارلیمان اور سابق وزیر منیکا گاندھی نے مالاپورم کو جرائم سے پر ضلع قرار دیا۔

    خیر مجھے یاد آریا ہے کہ اس صوبہ کے متصل تامل ناڈو میں ایک ہاتھی کا قضیہ برسوں سے عدالتوں میں گردش کرتا رہا۔ معاملہ ہاتھی کے مذہب کا نہیں بلکہ اس کی ذات طے کرنا تھا۔ تامل ناڈو یا مدراسی برہمنوں کے دو فرقہ ہیں۔ بھگوان شیو کی پوجا کرنے والے فرقہ کو آئیر اور بھگوان ویشنو کی پوجا کرنے والا فرقہ آئینگر کہلاتا ہے۔ آئینگر خود دو ذیلی فرقوں میں بٹے ہیں۔ شمالی تامل ناڈو سے تعلق رکھنے والے وڈاگالی، جو اشلوک و پوجامیں صرف سنسکرت زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ ان کے ماتھے پر انگریزی حرف یو Uکی شکل کا قشقہ لگا ہوتا ہے۔ دوسرا ذیلی فرقہ تھنگالی ہے، جن کی اکثریت جنوبی حصہ میں ہے۔ یہ فرقہ سنسکرت کے علاوہ مقامی تامل زبان میں بھی اشلوک و پوجا ادا کرتا ہے۔ ان کے ماتھے پر انگریزی حرف وائی Yکی شکل کا قشقہ ثبت ہوتا ہے۔ جون 2015میں تری مالا کے ایک مندر میں کسی عقیدت مند نے ہاتھی دان میں دیا ۔ جنوبی بھارت میں مندروں کو ہاتھی دان میں دینا قدیمی روایت ہے۔ جس کو اب متفقہ طور پر پجاریوں اور حکومت نے کسی حد تک بند کروادیا۔ انہوں نے اب شرط رکھی ہے کہ جو شخص مندر کو ہاتھی عطیہ میں دیتا ہے تو اسکو اسکی خوراک کا بندوبست بھی کرنا پڑے گا۔ اکثر ہوتا یہ تھا کہ عقیدت مند ہاتھی مندر کے دروازے پر کھڑا کرتا تو تھا، مگر اس کی خوراک کی وجہ سے کئی بار پجاریوں کا دیوالیہ نکل جاتا تھا اور وہ پھر اس ہاتھی کو آوارہ گھومنے کےلئے چھوڑ دیتے تھے۔

    مند ر میں ہاتھی کیا پہنچا کہ آئینگر فرقہ کے دونوں ذیلی فرقہ آمنے سامنے آگئے۔ دونوں اس کے ماتھے پر اپنا نشان یا قشقہ ثبت کرکے اسکو اپنی ذات میں شامل کرنا چاہتے تھے۔ وڈاگالی اسکے ماتھے پر Uکا نشان تو تھنگالی پجاری اس پر اپنا حق جماتے ہوئے Yکا نشان رنگنا چاہتے تھے۔ یہ تنازعہ جب عدالت پہنچا تو معلوم ہوا کہ اسی طرح کا ایک مقدمہ 1792 سے اور ایک دوسرا کیس1942سے کورٹ کی غلام گردشوں میں پھنسا ہوا ہے۔ ٹرانکور ریاست کے مہاراجہ نے 1942میں کانچی پورم کے مندر کو ایک ہاتھی دان میں دیا۔ بس کیا تھا کہ اس کی ذات پر ہنگامہ شروع ہوگیا۔چونکہ شاید مہاراجہ کو علم تھا کہ ہاتھی ایک قضیہ کھڑا کرسکتا ہے تو اس نے اس کے ماتھے پر وڈاگالی قشقہ رنگنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ مگر دوسرے فرقے نے اسکو کورٹ میں چلینج کیا۔ یہ دونوںکیس بھارت کی عدالتی تاریخ کے قدیم ترین مقدمے ہیں۔ دونوں ہاتھیوں کے اب باقیات بھی نہیں رہے ہیں ، مگر کیس اب بھی سپریم کورٹ میں زیر التو ا ہے، کیونکہ ان ہاتھیوں کے بدل لائے گئے تھے۔نچلی عدالتوںمیں برسہا برس کی مقدمہ بازی کے بعد1976 میں مدراس ہائی کورٹ نے دونوں فریقوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ دو ہاتھی مندر کو دیں۔ پجاریوں کےلئے لازم قرار دیا تھا کہ پوجا کے دوران دونوں ہاتھیوں کو یکساں طور پر شامل کریں اور دونوں ایک ہی طرح کی خوراک و احترام کے حقدار ہونگے۔ دونوں فریقوں کو بتایا گیا کہ وہ اپنے اپنے ہاتھی کی خوراک اور دیکھ بھا ل کا خرچہ بھی برداشت کریں۔ لیکن فریقین نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکٹھایا ، جہاں تاریخ کا یہ طویل ترین کیس التواءمیں ہے۔

    برطانوی دور اقتدار میں 1854میںضلع کلکٹر نے تھنگالی فرقہ کے حق میں فیصلہ سنایا تھا۔ مگر دوسرا فریق ہار ماننے والا نہیں تھا۔ نچلی عدالت، سیشن عدالت، ہائی کورٹ کی سنگل بینچ، ڈبل بینچ، ڈوئژن بینچ، غرض فریقین نے عدالتی جنگ لڑنے اور ہاتھی کی ذات طے کرنے کےلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ بقول معروف جرنلسٹ شاستری راما چندرن ، جو خود بھی آئینگر برہمن ہیں ، جب ایک کورٹ وڈاگالی فرقہ کے حق میں فیصلہ سناتا تھا تو لاو لشکر و بینڈ باجے کے ساتھ شہر میںہاتھی کو گھما کر جشن منایا جاتا تھا۔ ہاتھی کے ماتھے پر تھنگالی قشقہ رگڑ رگڑ کر صاف کرایا جاتا تھا۔ چنگارڈ کر ہاتھی اپنی تکلیف بھی ظاہر کرتا تھا، جس کا اس ہجوم پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ جب دوسری عدالت سماعتوں کے بعد پچھلی عدالت کے فیصلہ کلعدم قرار دیکر پھر ہاتھی تھنگالی فرقہ کے حوالے کرتی تھی، تو بس پھر جشن منانے کی باری اس فرقہ کی ہوتی تھی۔ایک بار پھر ہاتھی کے ماتھے سے وڈاگالی قشقہ رگڑ رگڑ کر صاف کرکے اسکو نہلاکر پھر Yوالا قشقہ ثبت کیا جاتا۔ اس دوران مدراس کے کثیر الاعشاعت روزنامہ دی ہندو کا وطیرہ بھی عجیب و غریب تھا۔ چونکہ اس کے مالکان بھی آئینگر برہمن ہیں تو جب فیصلہ ان کے ذیلی فرقہ کے موافق آیا تھا تو خبر سرورق پر نمایا طور پر شائع کی جاتی تھی، اور جب فریق مخالف کے حق میں فیصلہ آتا تھا تو ، کسی اندر کے صفحہ پر خبر دبائی جاتی۔ اس پورے قضیہ کے دوران ہاتھی کو بار بار قشقہ مٹانے اور نیا قشقہ پینٹ کرنے کے تکلیف دہ اذیت سے گذرنا پڑتا تھا۔

    کہتے ہیں کہ کیرالا کے بعض مقامات میں کافی عرصے سے کھیتوں میں کھڑی فصلوں کو جنگلی سوروں سے بھاری نقصان کا سامنا ہورہا تھا، تو حکومت کی جانب سے جنگلی سوروں کو مارنے کا حکم نامہ جاری ہوا۔کسانوں نے پھلوں کے اندر بارود بھر کررکھنا شروع کیا، جس کو کھاتے ہی سور کی موت ہوجاتی ۔لگتا ہے کہ بد قسمتی سے یہ پھل ایک حاملہ ہتھنی کے منہ لگ گیا، جس سے اسکا منہ زخمی ہوگیا ا ور درد سے پریشان وہ ادھر ادھر بھاگ کر مالاپورم پہنچ گئی۔جہاں و ہ گلے گلے تک پانی میں جا کر کھڑی ہو گئی۔اسی عرصے میں اس کی موت ہو گئی اور وہ پانی میں گر گئی۔ اس کی پوسٹ مارٹم رپورٹ بتاتی ہے کہ اس کے منہ میں زبردست زخم ہو گیا تھا جس کی وجہ سے وہ دو ہفتے تک نہ تو کچھ کھا سکی تھی نہ ہی پی سکی تھی۔یہ محض ایک اتفاق ہی تھا، مگر اس معاملے کو بڑی تیزی سے فرقہ وارانہ رنگ دیا گیا۔ پاکستان اور مسلمانوں کو نشانہ بناکر اپنی ناکامیوں سے عوام کی توجہ ہٹانا حکمران بی جے پی اور اسکے حواریوں کےلئے ایک آزمودہ فارمولہ بن چکا ہے۔ملک میں جنتی زیادہ معاشی ابتری اور کورونا سے نپٹنے میں ناکامی سے عوام کی حالت بگڑتی چلی جائیگی، فرقہ واریت اور پاکستان مخالف جذبات کو بھی اتنی ہی تیزی کے ساتھ ہوا دی جائیگی۔

  • COVID19: BDC Chairperson Bhdhal Old hands over a ventilator to GMC Rajouri authorities

    COVID19: BDC Chairperson Bhdhal Old hands over a ventilator to GMC Rajouri authorities

    Rajouri, June,13:With the aim to augment the health infrastructure in the district, Javod Iqbal Choudhary, BDC Chairperson on behalf of the Block Development Council Budhal Old on Saturday has handed over a German-made ventilator Maquet Servo 8.0 to the Medical Superintendent GMC&AH in presence of Deputy Commissioner Rajouri, Mohammad Nazir Sheikh, Additional Deputy Commissioner, Sher Singh, DSEO, Bilal Mir and Nodal Officer COVID Control Room, Dr.Javid.

    It is worth mentioning here that a ventilator also called a breathing machine can offer the best chance of survival for patients with the worst effects of the CoronaVirus infection as it takes over the body’s breathing process when the disease has caused the lungs to fail and gives the patient time to fight off the infection and recover.

    While speaking on the occasion, Mr Javid Iqbal Chowdhary said that the ventilator has been provided by the Youth Progressive Initiative organisation with the aim to strengthen the health infrastructure of the district to cater the needs of the patients amid COVID19. He said augmentation of the Health infrastructure is the need of the hour. He also said that COVID-19 has thrown open new challenges before mankind and to combat we have to lay more focus on augmenting the health infrastructure.

    While speaking on the occasion, the Deputy Commissioner Rajouri, Mohammad Nazir Sheikh said that this piece of contribution will aid the district administration in augmenting the health infrastructure to tackle COVID-19 cases in the district and it also will help to ease the pressure on GMC&AH caused by the coronavirus crisis.

    The Deputy Commissioner said that the district administration is taking and has already taken a number of steps and preventive measures to combat the deadly coronavirus spread in the district and there is no need to panic. He also said that it is the duty of every individual and organisation to contribute as per their capacity to help the needy during such a situation.

  • Remove all toll plazas from Jammu region: UDA Establishment of toll plazas; UDA terms betrayal of massive mandate given to BJP by Jammu people

    Remove all toll plazas from Jammu region: UDA Establishment of toll plazas; UDA terms betrayal of massive mandate given to BJP by Jammu people

    JAMMU, June 13: United Democratic Alliance (UDA) strongly objected over the installation of forthcoming toll plazas in the Jammu region, seeking its immediate removal.

    In this connection, a meeting was called at United Democratic Alliance (UDA) office here today under the leadership of its convenor Munish Sahni.

    In the meeting, Rajiv Mahajan, Spokesperson UDA lambasted the J&K BJP leadership for adopting step-motherly attitude towards the people of Jammu. He asserted that during the establishment of plaza toll at Sarore in Samba district, J&K BJP leaders had assured for removal of the same but nothing has been done.

    “At that time, Ravinder Raina, J&K BJP President had taken up the matter with the Union Transport Minister, Nitin Gadkari about establishment of toll plazas in Sarore but all in vain,” Mahajan said.

    Mahajan said that BJP has got massive mandate from Jammu region during 2014 and 2019 Lok Sabha elections but it (BJP) has been miserably failed to do justice with the people of Jammu region.

    He emphasized that a common man who finds it difficult to provide two times meal per day due to COVID-19 pandemic, are finding it difficult to pay such tolls.

    The government should find another way for collection of its revenue rather to impose this atrocity tax which is totally against the poor people as they has already bearing the burden of COVID-19 crisis, he said.

    Mahajan said that with the establishment of Toll Plazas at Lakhanpur and Akhnoor BJP itself has betrayed the mandate of Jammu region.
    He said earlier the BJP former Minister had dismantled the toll plaza at Sarore on May 6, 2014, terming it was injustice with the people of Jammu but now how they will justify the people of Jammu region.
    UDA demanded immediate rollback of decision of establishment of forthcoming toll plazas at Lakhanpur and Akhnoor failing which the party has to face the wrath of people of Jammu region.

    Others who were present in the meeting include Retd IGP Sudhir Dogra General Secretary, Co-Convenors Col. S S Pathania, Krishan Manhas, Rajesh Kesari, Pritam Sharma, Vikrant Kapoor and Satish Poonchi.

  • Dr Shazad Alleges discrepancies in Allotment, Construction of  Bunkers in Border District Poonch

    Dr Shazad Alleges discrepancies in Allotment, Construction of Bunkers in Border District Poonch

    Jammu, June 13: Dr. Shazad Malik former Vice Chancellor, Sai Nath University and prominent social activist hailing from border district Poonch have alleged that there are several discrepancies in allotment to construction of bunkers in borders villages of district Poonch.

    He said that the union home ministry have sanctioned and released millions of rupees to J & K government for construction of community and individual bunkers but unfortunately the ground situation is totally different and there is not equivalent between the amount released and used on ground.

    Citing the example of his native town Mendhar, the former VC charged that the local politicians having nexus with officers allotted the bunkers to their own blue eyed people and completely ignored the deserving villages and people who actually required these bunkers to save their lives from shelling across the border.

    He also released a picture of a huge pit hole filled with rain water that was excavated for construction of a bunker around a year back in the front yard of house belonging to one Tanzeem Khan resident of ward no 4, Sandote upper, Mendhar. Shazad revealed that earlier a community bunker was sanctioned by the administration in favour of Tanzeem but due to political reasons, the contractor stopped the work mid way and now this water filled pit hole have become a risk for the foundation of his house and in the upcoming monsoon it may be life hazard for the gullible family.

    Shazad has appealed to the Divisional Commisioner Jammu and DC Poonch to intervene in the matte and hold a probe that on whose instruction the construction work of this bunker was stopped mid way and also probe other similar irregularities in other border areas of Poonch.