GNS ONLINE NEWS PORTAL

*یومِ استاد: سماج کا معمار اور حضرت محمد ﷺ بطور بہترین معلم*

Facebook
Twitter
WhatsApp
Email

 جی این ایس آنلائن نیوز پورٹل

*تحریر*: طاہر مصطفیٰ

راجوری ستمبر 05

آج 14 ستمبر، یومِ استاد کے موقع پر میں ایک خاص تحریر اپنے قارئین کے سامنے رکھ رہا ہوں۔
استاد محض ایک لفظ نہیں بلکہ ایک ایسا چراغ ہے جو نسلوں کے مستقبل کو روشن کرتا ہے۔ یہ وہ ہستی ہے جو ایک بچے کو معصومیت اور ناپختگی کی وادی سے اٹھا کر باشعور اور باکردار انسان بناتی ہے۔ استاد کو معاشرے کا ستون کہا جاتا ہے کیونکہ اسی کے کندھوں پر سماج کی پوری عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ اگر استاد نہ ہو تو کوئی بھی سماج ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا تھا
یہ دن صرف ایک رسم یا تقریب منانے کے لیے
نہیں بلکہ استاد کی عظمت اور اس کے کردار یاد کرنے کے لیے منایا جاتا ہے۔ استاد محض ایک پیشہ ور نہیں بلکہ وہ شخصیت ہے جو نسلوں کو علم، شعور، اخلاق اور ہنر عطا کرتی ہے۔ استاد وہ ہستی ہے جو ایک عام انسان کو ایک کامیاب اور بامقصد زندگی گزارنے والا شہری بناتا ہے۔
بچے کے ابتدائی دنوں سے ہی استاد کا کردار شروع ہو جاتا ہے۔ جب بچہ بولنا نہیں جانتا، لکھنا نہیں جانتا، اپنے تسمے تک باندھنا نہیں جانتا، تب استاد اس کے ہاتھ تھام کر اسے لفظوں سے روشناس کراتا ہے۔ کبھی تو وہ بچے کے تسمے باندھ دیتا ہے، کبھی اس کے بال سنوارتا ہے، کبھی توتلی زبان میں الفاظ دہراتا ہے اور کبھی دل شکستہ شاگرد کو حوصلہ دے کر پڑھائی کی طرف مائل کرتا ہے۔ استاد صرف کتابوں کا علم نہیں دیتا بلکہ زندگی جینے کے آداب، سماج میں رہنے کا ڈھنگ، صبر، ہمدردی، محبت اور انصاف جیسے اوصاف سکھاتا ہے۔ اسی لئے استاد صرف ڈاکٹر، انجینئر یا وکیل نہیں بناتا بلکہ انسان کو ایک مکمل انسان بناتا ہے۔
استاد کا کردار محض اسکول یا کالج کی چار دیواری تک محدود نہیں ہوتا۔ وہ شاگرد کے دل و دماغ کو سمجھتا ہے۔ بعض اوقات بچہ اپنی مشکلات اور پریشانیاں زبان سے بیان نہیں کر پاتا، مگر استاد اپنی بصیرت اور محبت سے انہیں محسوس کرتا ہے۔ استاد کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ شاگرد کے ذہن تک اترے، اس کے جذبات کو سمجھے، اور پھر اسے اس انداز میں رہنمائی دے کہ وہ اپنی راہ خود بنا سکے۔ استاد چراغ کی مانند ہے جو خود کو جلا کر دوسروں کو روشنی فراہم کرتا ہے۔

لیکن آج کے دور کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ لوگ استاد بننے سے گریز کرتے ہیں۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ وہ سیاست دان بنے، سائنسدان بنے، وکیل یا افسر بنے، مگر استاد بننے کو مشکل اور کم پرکشش پیشہ سمجھتا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ انہی بڑے بڑے شعبوں کے ماہرین کی بنیاد ایک استاد ہی رکھتا ہے۔ استاد ہی ہے جو ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان، جج، وکیل، صحافی، کھلاڑی اور لیڈر تراشتا ہے۔ استاد کی محنت کے بغیر کوئی بھی پیشہ پروان نہیں چڑھ سکتا۔

آج کے دور میں یہ تاثر بڑھ گیا ہے کہ استاد کا فرض صرف کتاب پڑھانے تک محدود ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ استاد کا کردار بہت وسیع ہے۔ سماج میں جہاں بھی ناانصافی، ظلم یا برائی ہو، وہاں استاد کو بھی اپنی آواز بلند کرنی چاہیے۔ استاد وہی ہے جو صرف کلاس روم میں سبق نہ دے بلکہ معاشرے میں بیداری پیدا کرے، کمزور اور دبے ہوئے لوگوں کو سہارا دے، اور ظلم کے خلاف روشنی کا مینار بنے۔ اگر استاد اپنی اس سماجی ذمہ داری کو سمجھے تو معاشرہ نہ صرف تعلیم یافتہ بلکہ انصاف پسند اور انسان دوست بھی بن سکتا ہے۔

ہر انسان کی زندگی میں استاد کا کردار بچپن سے بڑھاپے تک جاری رہتا ہے۔ استاد بچے کو بولنا سکھاتا ہے، لکھنا پڑھنا سکھاتا ہے، اس کے خوابوں کو پروان چڑھاتا ہے، اس کے دل کے خوف کو کم کرتا ہے، اور اس کی شخصیت کو نکھارتا ہے۔ استاد صرف ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان یا وکیل پیدا نہیں کرتا بلکہ ایک مکمل انسان تخلیق کرتا ہے۔ استاد کی محنت سے ہی سماج میں وہ افراد جنم لیتے ہیں جو ترقی اور خوشحالی کے ضامن بنتے ہیں۔

اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو سب سے عظیم استاد کی مثال ہمیں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ذات مبارکہ میں ملتی ہے۔ آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے معلمِ انسانیت بنا کر بھیجا۔ آپ ﷺ نے نہ صرف اپنے ماننے والوں کو بلکہ پوری دنیا کو علم، عدل، مساوات، بھائی چارے، محبت اور اخلاق کا سبق دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: “علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔” آپ ﷺ نے عورتوں کو حقوق دیے، یتیموں کی کفالت کا درس دیا، بڑوں کا احترام اور چھوٹوں پر شفقت کرنے کی تعلیم دی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ کو دنیا کا سب سے بہترین معلم مانا جاتا ہے۔

آج یومِ استاد کے دن ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ کیا ہم استاد کو اس کا اصل مقام دے رہے ہیں؟ کیا ہم استاد کو صرف ایک ملازم سمجھ کر اس کی عزت گھٹا رہے ہیں یا اسے واقعی قوم کا معمار تسلیم کر رہے ہیں؟ استاد کو صرف نصاب پڑھانے والا نہ سمجھا جائے بلکہ اسے سماج کا رہنما مانا جائے، کیونکہ وہی ہے جو نئی نسل کی بنیاد رکھتا ہے۔

آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ استاد ایک سایہ دار درخت کی مانند ہے۔ وہ خود دھوپ برداشت کرتا ہے لیکن اپنے شاگردوں کو سکون اور روشنی فراہم کرتا ہے۔ استاد کی عظمت کو سلام کرنے کے لیے صرف تقریبات کافی نہیں بلکہ ہمیں یہ عہد کرنا ہوگا کہ ہم استاد کو اس کا اصل مقام دیں گے، اس کی رہنمائی کو دل سے قبول کریں گے، اور اپنی زندگی میں اس کی تعلیمات کو عملی جامہ پہنائیں گے۔ کیونکہ استاد صرف کل کا نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے مستقبل کا معمار ہے۔

*طاہر مصطفیٰ*
استاد، محقق اور سابق سیکرٹری جیوگرافیکل سوسائٹی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Poll

[democracy id="1"]

Share Market

Also Read This

Gold & Silver Price

today weather

Our Visitor

1 6 1 2 5 2
Users Today : 211
Users Yesterday : 210