ڈاکٹر ظفر الاسلام خان صاحب دہلی اقلیتی کمیشن کے Chairman ، حکومتی عہدے سے بھی زیادہ اِن کی شخصیت بڑی ہے، اسلامی اسکالر ہیں، سینئر صحافی ہیں، اُنھوں نے انگریزی اخبار The Milli Gazette جاری کیا تھا، درجنوں کتابوں کے مصنّف ہیں، عربی، انگریزی اور اردو زبانوں میں مہارت رکھتے ہیں، جو بھی بات کہتے ہیں بہت صفائی اور بیباکی کے ساتھ کہتے ہیں، فلسطین میں اسرائیلی مظالم کے خلاف قومی اور عالمی سطح پر لکھتے اور بولتے رہے ہیں، غریب بچّوں کی تعلیم اور مدد میں کافی آگے رہتے ہیں، آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے تین بار صدر رہ چکے ہیں، Charity Alliance نامی ادارے کے سربراہ ہیں، اِس ادارے کی طرف سے مغربی بنگال کے ضلع مرشدآباد میں غریب بچّوں کے لئے ایک اسکول بھی چلایا جاتا ہے اور اتّرپردیش کے ضلع شاملی میں مظفر نگر فساد کے مظلوموں کے لئے 32 گھروں کی ایک کالونی بھی بنائی گئی ہے، ڈاکٹر ظفر الاسلام خان جیسی شخصیتیں ہندوستان میں بہت ہی کم ہیں
ہندوستان کی راجدھانی دہلی میں فروری کے مہینے میں ہوۓ فساد کے نتیجے میں مسلمانوں کے خلاف بے پناہ مظالم ڈھائے گئے، عالمی بیماری کرونا وائرس کو ہندوستان میں پھیلانے کا ذمّہ دار مسلمانوں کو ٹھہرایا گیا، جس کی وجہ سے عرب اسکالر اور صحافی مسلمانوں کی حمایت میں آۓ، ہندوتّوا اور آر ایس ایس کے خلاف عالمی سطح پر آواز بلند کی، مسلمانوں کے خلاف مظالم پر کویت کی حکومت نے بھی زبردست تنقید کی، جس پر ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے کویت کی حکومت کا شکریہ ادا کیا، لیکن ہندوستان کی حکومت اور میڈیا نے اِسے ملک مخالف کہہ ڈالا اور اُن کے خلاف کاروائی کی باتیں کی جانے لگیں، معاملے کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے خان صاحب نے اپنے بیانات کے لئے معافی مانگ لی، اب جب خان صاحب نے معافی مانگ لی تو معاملہ کو ختم کر دینا چاہئے، لیکن ماضی کی طرح اِس بار بھی مسلمان ہونے کی وجہ سے خان صاحب کو بدنام کرنے اور کاروائی کرنے کے لئے ماحول بنایا گیا اور آج بے گناہی کے بعد بھی خان صاحب کے خلاف دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے ملک سے غدّاری کا مقدمہ درج کر دیا ہے، اُن کے خلاف غدّاری کا مقدّمہ درج کیا جانا انتہائی افسوسناک ہے
ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں مقبول ہیں، ان کی باتوں میں سچائی ہوتی ہے، مسلمانوں سے ہمدردی ہے، باطل کو باطل اور حق کو حق کہتے ہیں، محض سچ بات پر صرف لفظِ “شکریہ” کہنے پر ہی بی جے پی کی حکومت اور میڈیا اُن کے خلاف ہو گئی ہے، ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کوئی معمولی شخصیت نہیں ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی اُن کے خلاف بڑی ہی آسانی کے ساتھ مقدّمہ درج کر لیا گیا ہے، اُن کے لفظِ “شکریہ” کہنے پر مچے ہنگامہ پر خان صاحب نے فوراً معافی بھی مانگ لی لیکن اس کے باوجود بھی اُن کے خلاف سازشیں کر کے پورے ملک میں ماحول تیار کر کے غدّاری اور بغاوت کا الزام دے دیا گیا ہے، جب کہ اُنھوں ابھی اور نہ ہی پہلے کوئی بھی ملک مخالف عمل نہیں کیا ہے
قارئین کرام! ڈاکٹر ظفر الاسلام خان جیسی شخصیتیں ہندوستان میں کم ہیں، وہ ایک سچّے، بیباک اور ہمدرد انسان ہیں، اُن کے خلاف سازشیں اور کاروائیاں نہ صرف افسوسناک ہیں بلکہ ملک میں مختلف تنظیموں اور سربراہوں کے لئے سوچنے کا مقام بھی ہے، ضرورت ہے کہ اِس وقت ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کی حمایت میں متّحدہ آواز بلند کی جاۓ اور اُن کی مکمّل حمایت کی جاۓ، ذرا سوچئے اگر دہلی اقلیتی کمیشن کے Chairman اور عظیم شخصیت پر بڑی آسانی کے ساتھ ملک سے غدّاری اور نفرت پھیلانے کا مقدّمہ درج ہو جاتا ہے تو پھر عام مسلمانوں اور طلباء کے خلاف کاروائیاں کتنی آسانی سے کی جا سکتی ہیں، ہم سب ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کی مدد اور حمایت کے لئے جہاں قانونی طور پر کوششیں کریں تو وہیں اسلامی اُخُوَّت کی بنیاد پر بھی اُن کا مکمّل ساتھ دیں، آپ صلّٰی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو نہ تو تنہا چھوڑتا ہے اور نہ ہی کافروں کے حوالے کرتا ہے، ہندوستانی مسلمانوں کے لئے سخت آزمائش کا وقت ہے لیکن ہمیں ہمّت نہیں ہارنی ہے بلکہ اللہ تعالیٰ پر مکمّل اعتماد کر کے کوشش جاری رکھنی ہے..
محمد وسیم ابن محمد امین، ریسرچ اسکالر
شعبہء اردو، جامعہ ملّیہ اسلامیہ، نئی دہلی