پونچھ کی مٹی کو زرخیز مٹی کہا جاتا ہے اور اس کی مثال ہر شعبہ زندگی میں ملتی ہے بہت سارے لوگوں نے یہاں سے اٹھ کر ملکی سطح پر ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر نام کمایا ہے مگر چند سال قبل سے یہاں ایک سلسلہ شروع ہوا جو آج اس قدر عروج پکڑ چکا ہے کہ اب اس کا خاتمہ بالکل مشکل لگ رہا ہے میری مراد ہے یہاں کے چاپلوسی کلچر سے کیونکہ ضلع میں بیشتر ایسی غیر سرکاری تنظیمیں ہیں جو اپنے آپ کو انتظامیہ کے اعلیٰ ترین چمچوں میں مانتے ہیں حالانکہ کہا تو یوں جاتا ہے کہ چمچہ جس بھی برتن میں ہو اسے خالی کر دیتا ہے مگر ہماری انتظامیہ شاید اس حقیقت سے ابھی ناآشنا ہے۔ اگر حالات حاضرہ کو دیکھا جاۓ تو اس وقت پوری دنیا ایک بحران سے گزر رہی ہے اس وقت مختلف تنظیمیں لوگوں کی امداد کے لیے اقدامات کر رہی ہیں جو یقیناً قابل داد عمل ہے جس کی سراہنا ہونی چاہیے مگر کچھ خود غرض عناصر اس وقت لوگوں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر انہیں یرغمال بنا کر فوٹو سیشن کرنے میں مشغول ہیں میرا انلوگوں سے سوال ہے کہ وہ ایک بار اپنے آپ کو ان مجبور لوگوں کی جگہ رکھ کر ضرور سوچیں اگر انہیں پھر بھی اچھا لگے تو ان کی سوچ انہیں مبارک۔ اس چاپلوسی کلچر میں کئی نا کئی ہماری انتظامیہ کے کچھ افسران کا بھی اہم رول ہے جو ان خود غرض عناصر کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوۓ ہیں۔ اس چاپلوسی کلچر کا سیدھا نقصان ان لوگوں کو ہوتا ہے جو حقیقی معنوں میں کام کرنا چاہتے ہیں میرے ایک دوست ہیں جو صدق دلی سے کام کرتے ہیں اور فوٹو گرافی کلچر و چاپلوسی کلچر سے دور دور تک واسطہ نہیں رکھتے آج جب ان سے بات ہوئی تو یقین جانیے ان کی بات نے میرے بھی رونگٹے کھڑے کر دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے جب لوگوں کو بنیادی ضروریات تقسیم کیں تو انہیں انتظامیہ کے کسی اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ ان کے خلاف کاروائی ہو سکتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ان کی بات سن کر انہوں نے ضلع کے ایک اعلیٰ ذمہ دار عہدیدار سے بات کی کہ “انہوں نے لوگوں کو کچھ سامان دیا ہے مگر اب انہیں کئی سے یہ بات سننے کو ملی ہے کہ آپ کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے” تو اس آفیسر کا جواب تھا کہ ” آپ لوگ محض چاپلوسی اور سستی شہرت کے لیے یہ سب کرتے ہو” یقین جانیے یہ بات مجھے ناگوار گزری اب بھی اگر آپ کو چاپلوسی کلچر سے ہمدردی ہے تو اپنی راہ پر آگے بڑھیے ورنہ ایک بار اپنے ضمیر کی آواز سن لیں اور چاپلوسی و فوٹو گرافی کلچر کو مذید بڑھاوا دیں تاکہ یہ آگے چل کر کئی دم نہ توڑ دے۔
تحریر جرنلسٹ تنویر پونچھی
