ایک پونچھی اور ڈوگرا آپس میں بات کر رہے تھے۔ با ت کرتے کرتے پونچھی ڈوگرے سے پوچھتا ہے۔
بھائیا کیا آپ کبھی پونچھ گئے ہیں۔؟؟
ڈوگرا دو ٹوک الفاظ میں جواب دیتا ہے۔سکٹریٹ ہمارے پاس، یونیورسٹیاں ہمارے پاس، کالج ہمارے پاس، اسپتال ہمارے پاس، راجدھانی ہمارے پاس، امتحان سنٹر ہمارے پاس ، ائیرپورٹ ہمارے پاس، ریلوےسٹیشن ہمارے پاس، سمارٹ سیٹی ہمارے پاس ، نائب وزیر اعلی ہمارے پاس،کیبنٹ منتری ہمارے پاس، ماڈرن بس سٹینڈ ہمارے پاس ، فلائی اورز ہمارے پاس، پبلک سروس کمیشن ہمارے پاس، سروس سلیکشن بورڈ ہمارے پاس۔۔۔۔۔ جب اتنی ساری سہولیات ہمارے پاس موجود ہیں تو میں کیا پو نچھ پتھروں کو دیکھنے جاؤں۔
پونچھی شرم کے مارے سر جھکا لیتا ہے۔ اور یہ سوچنے لگتا ہے کے کون سی ایسی چیز ہے پونچھ میں جس کو دیکھنے کے لیے میں اس کو آمادہ کروں۔۔۔۔ ابھی وہ یہی سب کچھ سوچ رہا تھا کے ڈوگرا اسے سوال کرتا ہے۔
بھائیا آپ بتاؤ ، آپ کے پونچھ کے چھ سات MLAs اور MLCs ہیں انہنوں نے وہاں کیا کیا کمال کئے ہیں۔۔؟
پونچھی بڑے خوبصورت الفاظ میں جواب دیتا ہے جتنی چیزیں آپ نے گنوائی اتنا تو انہنوں نے نہیں کیا ہے۔ البتہ انہنوں نے ایک کام بڑی ہوشیاری سے کیا ہے۔
ڈوگرا وہ کیا۔۔؟
پونچھی۔۔۔ پہلے اپنے گاؤں میں اپنے بڑے بڑے اور خوبصورت بنگلے بنائے ہیں، اس کے بعد تحصیل سطع پہ ان کی کوٹھیاں، ضلعی سطع پہ ان کی کوٹھیاں ، صوبائی سطع پہ ان کی کوٹھیاں ، ریاستی سطع پہ ان کی کوٹھیاں، یہاں تک کے کچھ نے قومی راجدھانی دہلی میں بھی اپنی کوٹھیاں بنائی ہیں۔ کم سے کم ان کی ضلعی سطع پہ جو کوٹھیاں ہیں وہ دیکھنے تو آ جاؤ پونچھ۔
ڈوگرا زور زور سے ہنستا اور کہتا ہے۔ ہمیشہ سادے ہی رہو گے۔ اور کہتا ہے پھر ملیں گے۔جاتے جاتے پونچھی ڈوگرے سے کہتا ہے۔ شاید ضلع پونچھ جموں صوبے کا سوتیلا بیٹا ہے ۔
میں بظاہر خود جب ایک طالب علم کی حیثیت سے شعبہ سیاسییات سنٹرل یونیورسٹی کشمیر میں پڑھ رہا تھا تو میں نے بھی اپنے دوستوں، یاروں کو پونچھ آنے کی بہت باد دعوت دی۔ ان کا ایک ہی جواب ہوتا تھا کے آپ شادی کرو۔ شادی پہ ضرور آئیں گے۔ ورنہ کوئی ایسی چیز بتاؤ جو پونچھ میں دیکھنے لائق ہو۔ ہے کیا پونچھ میں جو ہم دیکھنے آئیں، کوئی یونیورسٹی ہے۔ کوئی آئی آئی ٹی انسٹیچوٹ ہے۔ کوئی میڈیکل کالج ہے۔ ۔۔۔کیا چیز ہے ایسی جسے ہمیں کچھ سیکھنے کو ملے۔ کچھ اس میں نیا دیکھنے کو ملے۔ورنہ پہاڑ اور جنگل ہم نے رام بن کے راستے بہت دیکھے ہیں۔ تو میرے پاس بھی ان کے سوالوں کا نہ کوئی جواب تھا اور نہ آج ہے۔
یہ حقیقت ہے اگر ضلع پونچھ کو ہم ترقی کے اعتبار سے دیکھیں تو جموں کے دوسرے اضلاع کی بنسبت نہ کے برابر ہے۔ بڑے بڑے انسٹیچوٹ تو دور کی بات، یہاں کی سڑکیں پیدل چلنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔ جس کی مثال دور دراز گاؤں کو تو چھوڑو، پونچھ۔منڈی رابطہ سڑک جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ جہاں آج بھی اکیسویں صدی میں ۲۰ کلو میٹر سفر طے کرنے میں مسافر گاڑی دو گھنٹے لگاتی ہے۔ اگر گاؤں کی بات کی جائے تو جس جس کو ضلع پونچھ میں ترقی دیکھنی ہے وہ اڑائی آ کر دیکھ لے۔ منڈی۔ اڑائی رابطہ سڑک، جس کا کام ۱۹۷۲ ء میں شروع ہوا تھا۔ صرف آٹھ کلو میٹر سڑک آجتک تشنہ تکمیل ہے۔ اس سڑک پہ گاڑیاں چلانا تو دور کی بات، پیدل چلنے کے قابل بھی نہیں ہے۔ کرڑوں روپے اس سڑک کے نام پہ آج تک ہضم ہو گئے ہیں۔حال ہی میں دو کروڑ روپے اور گورنر انتظامیہ نے اس سڑک کے لیے مختص کیے ہیں۔ تا کے اس سڑک کو آمدورفت کے قابل بنایا جا سکے۔ ضلع ترقیاتی کمشنر کی ہدایات کے باوجود ، ٹھکیدار ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔ اور اسی دریا پہ اس سڑک کا کام جاری ہے۔ جو ۲۰۱۴ میں اسے اپنے ساتھ بہا لے گیا تھا۔
ضلع پونچھ کے گردو نواع کے علاقوں میں غریب نوجوانو نے بڑی بڑی پوسٹوں پہ جانے کے خواب تو بہت پہلے چھوڑ دئے تھے لیکن وہ ایک معمولی چپراسی کی پوسٹ پر بھی نہیں جا سکتے۔ ایسا نہیں کے ان میں کوئی ٹیلنٹ کی کمی ہے۔ کمی ان کی غربت ہے۔ جو ان کے آڑے آ رہی ہے۔ قابل ہونے کے باوجود بھی وہ اس قابل نہیں ہوتے کے جموں یا سرینگر جا کر امتحان دیں۔
آجکل جب سے نوکری حاصل کرنے کے لیے سرکار نے انٹرنس سسٹم کا آغاز شروع کیا ہے تو ایک معمولی سی پوسٹ کے لیے بھی امتحان دینا پڑتا ہے۔ لیکن ہماری بدنصیبی یہ ہے ان ساری پوسٹوں کے امتحانی مراکز ، جموں یا سرینگر ہوتے ہیں ۔ جسکا نتیجہ ہمارے غریب نوجوان قابل ہونے کے باوجود رہ جاتے ہیں۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کے صرف ایک پیپر کے لیے اگر کسی بچے کو جموں جانا ہے۔ تو پونچھ سے صرف جموں آنے جانے کا ایک ہزار، اگر وہ دو دن جموں رکتا ہے۔ تو کمرے کا کرایا دو ہزار، پھر وہ کھائے پئے گا بھی کچھ۔ کہنے کا مطلب اگر ایک پیپر دینے کے لیے نارمل نارمل پانچ ہزار روپے خرچ ہو تے ہیں ۔ تو ایک غریب باپ بچارہ اتنے پیسے کہاں سے لائے۔مجھے خود اپنی زندگی میں بہت سارے پیپر ، تیاری کرنے کے باوجود اس وجہ سے چھوڑنے پڑے ۔کیوں کے میرے پاس جموں یا سرینگر جانے کے لیے خرچہ نہیں ہوتا تھا۔ اور آج بھی میرے ایسے بہت سارے دوست ہیں جو محض خرچہ نہ ہونے کی وجہ سے امتحان چھوڑ رہے ہیں۔
اگر پبلک سروس کمیشن ارو سروس سلیکشن بورڈ، اننت ناگ میں، بارہمولہ میں، کھٹوعہ میں، ڈوڈہ میں، کشتواڑ میں، ادھمپور میں، جو جموں اور سرینگر سے صرف پچاس کلو میٹر کی کم دوری پہ واقع ہیں۔وہاں امتحانی مراکز قائم کرتا ہے۔ تو ۳۰۰ کلو میٹر دوری والے پونچھ میں کیوں کوئی امتحانی مراکز قائم نہیں کیا جاتا۔؟؟
یہ ساری حقیقت۔ یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کے پونچھ واقع ہی میں جموں صوبے کا سوتیلا بیٹا ہے۔
خورشید تانترے۔۔۔ طالب علم شعبہ سیاسییات۔