جی این ایس آنلائن نیوز پورٹل
نام منشی_سکھ_دیو_پرشاد اور تخلص بسملؔ تھا۔
11؍نومبر 1899ء میں ایک کائستھ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ بسملؔ الہ آبادی کے والد صاحب منشی سبنل پرشاد دہلی کے رہنے والے تھے۔ وہ مرزا محمد رفیع سوداؔ کے شاگرد تھے۔ انھوں نے اردو اور فارسی میں شاعری کی۔ ان کا ایک دیوان اور ایک مثنوی شائع ہوچکی ہے۔ شروع سے ہی بسملؔ الہ آبادی نے اردو اور فارسی پڑھی۔ اسکول کے زمانے سے ہی انھوں نے شاعری شروع کردی تھی۔ بسملؔ الہ ابادی نوحؔ ناروی کے شاگرد تھے۔ جن سے انھوں نے شاعری کے رموز سیکھے۔ اور ان سے اپنی شاعری پر اصلاح بھی لی۔ اسی سبب ان کا تعلق داغؔ اسکول سے منسلک کیا جاتا ہے۔ کچھ دن بعد نوحؔ ناروی سے ان کے تعلقات خراب ہوگے اور اس کشیدگی کے سبب وہ ان ک شاگردی سے دست بردار ہوگئے۔ اور ان کی شاعری الہ آباد اور اس کے اطراف میں بہت مقبول ہوئی۔ بسملؔ الہ آبادی کو زبان اور بیاں پر بڑی قدرت حاصل تھی۔ ان کی زبان دانی کمال کی تھی۔ بسملؔ صاحب کا شعر گوئی کا انداز منفرد اور خوب صورت تھا۔ اور مشاعروں میں اپنے مخصوص انداز میں شعر گوئی کرتے تھے اور یہی اظہاری اسلوب کمال اور جمال کو کئی شعرا نے اپنایا۔ ان کی سلیس اور شعری بیان داغؔ دبستان کی دیں ہے۔ اور یہی باتیں انھوں نے اپنے شاگردوں میں منتقل کی۔ بسملؔ صاحب کی شعری لسانیات اور مخاطبہ اور اسلوب نوحؔ ناروی کے ساتھ اس قدر جڑا ہوا ہے کہ اگر ان کی شاعری کو انکے نام کے بغیر پڑھنے کو دیا جائے تو یہ سمجھ پانا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ شاعری داغؔ دہلوی، نوحؔ ناروی یا بسملؔ الہ آبادی میں سے کس کی ہے۔ !! ان کی شاعری میں ترنم اور سوز سے زیادہ نشاط کا عنصر نمایاں طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ بسملؔ صاحب ایک سیکولر انسان تھے انھوں نے خوبصورت نعتیں بھی لکھی ہیں۔ انکی نعت کا مصرعہ ملاخطہ کریں۔
حقیقت بادہ حب نبیﷺ کو ہم سمجھتے ہیں
خدا کے ہاتھ سے ملتا ہے پیمانہ محمدﷺ کا
ان کو مطالعے کا بہت شوق تھا۔ اور ان کی شاگردوں کی تعداد بھی خاصی تھی۔ بسملؔ الہ آبادی تا حیات الہ اباد کے بلدیاتی بورڈ میں ملازمت کرتے رہے۔ اور ایک طویل عرصہ وہاں ملازمت کرنے کے بعد اسی ادارے سے ریٹائر ہوئے۔ وہ قناعت پسند انسان تھے۔ ان کی صحت قابل رشک رہی۔ لہذا انھوں نے ایک طویل عمر پائی۔
23؍نومبر 1975ء کی درمیانی شب کو حرکت قلب بند ہونے کے سبب دنیا سے کوچ کرگئے۔ اپنی وفات سے ایک روز قبل انھوں نے یہ مصرعہ لکھا تھا:
۔۔۔ بسملؔ آیا اکیلا بسملؔ جائے گا اکیلا ۔۔۔۔۔
مگر یہ بات غلط ثابت ہوئی کیونکہ جب ان کے صاحبزادے شیو شنکر لال اپنے والد بسمل الہ آبادی کی چتا کو نذر اتش کررہے تو ان پر دل کا دورہ پڑا اور وہ اسی دن دنیا سے رخصت ہوگئے۔
بسملؔ الہ آبادی کا ایک شعری بیاض ”جذبات بسمل“ کے نام سے شائع پوچکا ہے۔ لیکن ابھی ان کا بہت سا کلام چھپنے سے رہ گیا ہے۔ اس کو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
👈 #بشکریہ_احمد_سہیل_صاحب
✨🌹 پیشکش : شمیم ریاض
🛑🚥💠➖➖🎊➖➖💠🚥🛑
💫🍁 ممتاز ترین شاعر بسملؔ الہ آبادی کے جنم دن پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…..🍁💫
ان سے کہہ دو کہ علاج دل شیدا نہ کریں
یہی اچھا ہے کہ بیمار کو اچھا نہ کریں
کیا کہا پھر تو کہو ہم کوئی شکوا نہ کریں
چپ رہیں ظلم سہیں ظلم کا چرچا نہ کریں
یہ تماشا تو کریں رخ سے اٹھا دیں وہ نقاب
ایک عالم کو مگر محو تماشا نہ کریں
وقت آخر تو نکل جائے تمنا میری
وہ نہ ایسے میں بھی آئیں کہیں ایسا نہ کریں
انتہا ہو گئی آزاد دہی کی صیاد
ہم تصور میں بھی گلزار کو دیکھا نہ کریں
روز وہ کہتے ہیں آج آئیں گے کل آئیں گے
ایسے وعدے سے تو بہتر ہے کہ وعدا نہ کریں
خود نمائی انہیں غیروں میں لئے پھرتی ہے
ہم تو جب جانیں کہ ہم سے بھی وہ پردا نہ کریں
تیغ رک جاتی ہے ناوک بھی بہک جاتا ہے
کوئی بسملؔ کو یہ سمجھا دے کہ تڑپا نہ کریں
🛑🚥💠➖➖🎊➖➖💠🚥🛑
یہ کیسی آگ ابھی اے شمع تیرے دل میں باقی ہے
کوئی پروانہ جل مرنے کو کیا محفل میں باقی ہے
ہزاروں اٹھ گئے دنیا سے اپنی جان دے دے کر
مگر اک بھیڑ پھر بھی کوچۂ قاتل میں باقی ہے
ہوئے وہ مطمئن کیوں صرف میرے دم نکلنے پر
ابھی تو ایک دنیائے تمنا دل میں باقی ہے
ہوا تھا غرق بحر عشق اس انداز سے کوئی
کہ نقشہ ڈوبنے کا دیدۂ ساحل میں باقی ہے
قضا سے کوئی یہ کہہ دے کہ مشتاق شہادت ہوں
ابھی اک مرنے والا کوچۂ قاتل میں باقی ہے
کہاں فرصت ہجوم رنج و غم سے ہم جو یہ جانچیں
کہ نکلی کیا تمنا کیا تمنا دل میں باقی ہے
ابھی سے اپنا دل تھامے ہوئے کیوں لوگ بیٹھے ہیں
ابھی تو حشر اٹھنے کو تری محفل میں باقی ہے
وہاں تھے جمع جتنے مرنے والے مر گئے وہ سب
قضا لے دے کے بس اب کوچۂ قاتل میں باقی ہے
ابھی سے تو نے قاتل میان میں تلوار کیوں رکھ لی
ابھی تو جان تھوڑی سی تن بسملؔ میں باقی ہے
🛑🚥💠➖➖🎊➖➖💠🚥🛑
آزار و جفائے پیہم سے الفت میں جنہیں آرام نہیں
وہ جیتے ہیں لیکن ان کو مرنے کے سوا کچھ کام نہیں
افلاک کی گردش سے دم بھر دنیا میں ہمیں آرام نہیں
وہ دن نہیں وہ اب رات نہیں وہ صبح نہیں وہ شام نہیں
کیوں ہم نے محبت کی ان سے دقت میں پھنسے زحمت میں پھنسے
آغاز ہی میں دل میں کہتا تھا اچھا اس کا انجام نہیں
اس کا بھی الم اس کا بھی قلق یہ غم بھی ہمیں وہ غم بھی ہمیں
جینے کو غنیمت سمجھے تھے جینے میں مگر آرام نہیں
گلشن میں خزاں اب آ پہنچی مے خانے میں جی کیوں کر بہلے
وہ رنگ نہیں وہ لطف نہیں وہ دور نہیں وہ جام نہیں
ہر سانس سے آتی ہے یہ صدا مرنے کے لئے تیار رہو
جینے سے نہیں کچھ دلچسپی جینے سے ہمیں کچھ کام نہیں
قاتل کو یہ سمجھا دے کوئی نالے سے فغاں سے شیون سے
بسمل نہ کروں میں اے بسملؔ تو بسمل میرا نام نہیں
🌹 بسملؔ الہ آبادی 🌹
✍️ انتخاب : شمیم ریاض
Shameem Riyaz