GNS ONLINE NEWS PORTAL

شیرِپیر پنجال……..

Facebook
Twitter
WhatsApp
Email

از قلم ……..شفیق میر 

ایک عام سی کہاوت ہے کہ ہر شے آخر لوٹ کر اپنے اصل کی طرف جاتی ہے ۔انسانی وجود کے بارہ میں تحقیق کرنے والے دُنیا کے مشہور سائینس دان ڈارون کا کہنا تھا کہ دراصل انسان شروع میں بندر ہی ہوا کرتا تھا ، بعد میں ترقی کرتے کرتے یہ زہنی طور پر بدلنے کے ساتھ ساتھ اس کے جسمانی خد وخال بھی بدل گئے ، اور یہ ایک نئی شکل اختیار کر گیا جس کو بعد میں انسان کہا جانے لگا ۔ اگر چہ اس تھیوری پر مذہبی لوگوں کا اعتقاد نہ ہے ۔ لیکن کبھی کبھار جب ہم کُچھ انسانوں کی حرکات پر غور کرتے ہیں تو ڈارون کی اس تھیوری پر بھی یعقین آنے لگتا ہے کہ شاید یہ بھی سچ ہی ہو ۔ ڈارون نے انسان اور بندر کی ظاہری مشاہبت کو دیکھتے ہوئے یہ نتیجہ اخز کیا ہو کہ انسان بندر کا ہی ایک ترقی یافتہ قبیلہ ہے ۔ لیکن اگر آج کے انسان کی لالچ ،حرص اور اس کے ظلم اور بربریت کو دیکھا جائے تو اس نے تو بہت سارے جنگلی درندوں کو پار کر دیا ہے ۔ اب تو حالت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ اب کُچھ انسان اپنے آپ کو سیدھا ہی جنگلی جانوروں کا نام دینے لگے ہیں ۔اور انسانوں کی یہ حرکت بھی ڈارون کے نظریہ کی تصدیق کرتی ہے ۔
خیر میں اس بحث میں آگے نہ جاوں گا کہ انسان کس طرح سے وجود میں آیا ۔ میرا آج کا کالم ” شیرِ پیر پنجال “ ہے۔یہ دراصل کوئی جنگلی یا پہاڑی شیر نہ ہے جس کی کہانی میں آپ کو سنانے جا رہا ہوں ۔یہ اس خطہ میں انسانوں کا ایک ٹولہ ہے جو کہ اپنے آپ کو ایک مہذب اور شایستہ انسان کہنے کے بجائے جگلی شیر کہنے پر فخر محسوس کرتا ہے ۔ اور یہ ٹولہ یہاں کے چند سیاستدان ہیں جو کہ اس خطہ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ۔ سرحدی اضلاع پونچھ ۔راجوری کو مجموعی طور پر پیر پنجال خطہ بھی کہا جاتا ہے ،اور اس خطہ سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں میں گزشتہ چند برسوں سے ایک شوقیہ رُجحان بڑھا ہے کہ اُن کو شیرِ پیر پنجال کے نام سے پکارا جائے ۔ دراصل اس خود ساختہ خطاب کی شروعات چند برس قبل اس خطہ سے تعلق رکھنے والے ایک وزیر نے کی تھی جس نے اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات لگوا کر اپنے نام سے پہلے خطاب کے طور پر شیرِ پیر پنجال کا استمال کیا ۔اور یہ خود ساختہ خطاب اُس کے ساتھ تب تک جاری رہا جب تک وہ وزیر رہا ۔ اُس کی دیکھا دیکھی اس خطہ سے تعلق رکھنے والے بہت سارے لیڈران نے اس خود ساختہ خطاب کا بے دریغ استمال کیا ۔ کُچھ نے شیرِ پونچھ لکھا ، کُچھ نے شیرِ راجوری لکھا اور جس کی زیادہ لمبے علاقے پر نظر تھی وہ شیرِ پیر پنجال لکھتا تھا ۔ لیکن جب حالیہ الیکشن میں ان سب کی ہوا نکل گئی تو یہ تمام شیر غائیب ہو گئے اور اب ان کی جگہ نئے ل شیروںنے لے لی ہے جو انتخاب جیت کر آئے ہیں ۔مجھے اس بات سے کوئی اعتراض نہیں کہ یہ لوگ اپنے آپ کو ”شیر “ کیوں کہتے ہیں ؟ مجھے کیا فرق پڑتا ہے ؟ اگر کوئی شخص اپنے آپ کو جنگلی جانور سے تشبیح دیتا ہے تو میرا کیا جاتا ہے ۔ یہ اپنے آپ کو شیر لِکھیں ، بندر لکھیں ، لومڑی لکھیں ، گیدڑ لکھیں یا پھر جنگلی ریچھ لکھیں میرا کیا جاتا ہے ۔اگر جنگلی جانوروں کو ان کی گھر واپسی پر کوئی اعتراض نہ ہے تو مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے ؟۔ مجھے صرف یہ وضاحت چاہیے کہ یہ شیروں کے کون سے قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔شیر کی بہت ساری قسمیں ہیں ۔ جیسے ببر شیر ، چیتا شیر اور بلی نما شیر ۔
جنگلی جانوروں کی دیکھ بھال کرنے والے محکمہ Wild life Department )) کی تحقیق کے مطابق خطہ پیر پنجال میں نہ ہی تو ببر شیر پایا جاتا ہے اور نہ ہی چیتا شیر پایا جاتا ہے ۔ اس خطہ میں صرف اور صرف بلی نما شیر پایا جاتا ہے ۔ جو زیادہ تر لوگوں کے پالتو جانوروں پر رات کے اندھیرے میں حملہ کر کے اُن کو ہلاک کر دیتا ہے ۔ اور پھر ان جانورں کے گوشت سے اپنا پیٹ بھر کے فرار ہو جاتا ہے ۔ اب ان کو یہ وضاحت کرنی چاہیے کہ یہ کون سی قسم کے شیر ہیں۔ چونکہ ببر شیر اور چیتا شیر تو اس خطہ میں پایا ہی نہ جاتا ہے ۔ اُسکے بعد بچتا ہے © ©بِلی نما شیر ۔ اگر یہ بلی نما شیر ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہ ہے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ان کو ان کے حواری شیر شیر کہہ کر پکارتے ہیں تو ان کو خود بھی کبھی یہ احساس نہ ہوا کہ دراصل یہ لوگ تو ہم کو جنگلی جانوروں سے تشبیح دے رہے ہیں ۔اور اِنھوں نے کبھی بھی اس پر اعتراض نہ کیا کہ کہ ایسا اُن کو کیوں کہا جاتا ہے ۔ جیسا کہ میں پہلے ہی کہہ چُکا ہوں کہ اس خود ساختہ خطاب کی شروعات تو یہاں کے ایک سابقہ وزیر نے چند برس پہلے خود ہی کی تھی ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو شیر کیوں کہتے ہیں ؟ کیا ان کو انسان رہنے میں کوئی دلچسپی نہ ہے ؟ یا پھر شیر نے دُنیا میں کوئی ایسے کارنامے انجام دیئے ہیں جو کہ انسان نہ دے سکا ہے اس لیئے یہ شیر کے کارناموں سے اتنے متاثر ہیں کہ یہ شیر بننا چاہتے ہیں ۔ اس سوال کا جواب بھی انھی کے پاس ہو گا ۔دراصل جانوروں کی دُنیا میں شیر کو ایک بہادر جانور مانا جاتا ہے اور اس کو جنگلی جانوروں کا راجہ بھی کہا جاتا ہے ۔ اور جنگل کے تما م جانور شیر سے ڈرتے ہیں ۔ اب اگر مان بھی لیا جائے کہ یہ شیر ہیں ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ باقی ہم سب لوگ جنگلی جانور ہیں ، اور یہ ہمارے راجہ ہیں ۔ ہاہاہاہاہاہاہاہاہا۔
ارے بھائی تم شیر بنو ، ریچھ بنو یا پھر گیدڑ بنو یہ سب تُم کو مبارک ہم تو صرف انسان ہی رہیں گے ۔ ہم کو جب اس دُنیا اور مخلوق کے مالک نے اشرفاالمخلوقات کا درجہ دیا ہے تو ہم کیوںکر جنگلی جانور بنیں گے ۔ البتہ کسی حد تک اگر سوچا جائے تو ان لوگوں نے اپنے بارہ میں ایک صیح اندازہ لگایا ہے کہ وہ شیر ہیں ۔ اور اپنے آپ کو شیر کا خطاب دے کر اُنھوں نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ ان کو راجہ بنانے والی مخلوق صرف جانور ہی ہیں ۔ ویسے بھی انھوں نے ہمیں ہمیشہ جانوروں کی طرح ہی تو دیکھا ہے ۔ یعقیقن اگر ہم کوئی مہذب اور ترقی یافتہ انسان ہوتے تو اکیسویں صدی میں بھی ہمارے راجہ شیر ہی کیوں ہوتے ؟ آج کے زمانہ میں جب انسان نے ستاروں سے آگے بھی جہاں ڈھونڈھ نکالے ہیں اور انسان خلا میں بسنے کی تیاری کر رہا ہے ۔ اور ہم ابھی بھی شیر بننے میں فخر محسوس کر رہے ہیں ۔ اب آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جن رہنماوں کی سوچ ابھی تک جنگلی جانوروں تک ہی ٹِکی ہے تو وہ آج کے اس دور میں انسانوں کی خاطر کیا ترقی تلاش کر سکتے ہیں ۔ بقول ِ شاعر ……..
ان رہنماوں سے تو میل کا پتھر اچھا ……..سنگ ہو کر بھی منزل کا پتہ دیتا ہے ۔
( کالم نگار ایک سینئر صحافی ہیں ۔ اُن سے اس نمبر 09419170570 پر یا پھر mirshafiq@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے )

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Poll

[democracy id="1"]

Share Market

Also Read This

Gold & Silver Price

today weather

Our Visitor

1 7 0 7 3 8
Users Today : 51
Users Yesterday : 222