GNS ONLINE NEWS PORTAL

سلطان ہند خواجہ محی الدین چشتی رحمتہ اللہ نے حضرت بختیار کاکی رحمتہ اللہ پر لگی تہمت پر شیر خور بچے سے اپنے باپ کی گواہی عدالت میں دلوائی ۔۔۔۔۔

Facebook
Twitter
WhatsApp
Email

 

633ھ کا واقعہ ہے اس وقت حضرت خواجہ معین الدین چشتئ رح کی عمر اس 96 سال کی ہو چکی تھی ۔ ایک رات خواب میں دیکھتے ہیں کہ حضرت قطب الدین بختیار کاکی رح بہت پریشان نظر آ رہے ہیں ۔ جب سلطان ہند نے اس پریشانی کا سبب پوچھا تو عرض کرنے لگے شیخ محترم اس وقت آپ کا یہ خادم سخت ازیت میں مبتلا ہے مجھ پر ایک ایسی تہمت لگائی جا رہی ہے جسے سننے کے بعد اہل شہر حیران رہ گئے ہیں میں اپنی صفائی میں تمام دلائل پیش کر چکا ہوں مگر دشمنوں نے دولت کے زریعے انسان کا دل ضمیر یہاں تک کہ ایمان بھی خرید لیا ہے۔ لوگ خدا سے نہیں ڈرتے مگر میں خوشی میں بھی اور مصیبت میں بھی اپنے خدا کو ہی پکارتا ہوں۔ آپ میرے لیے دعا فرمائیں تا کہ کہ خاندان چشت کے اس غلام کی آبرو برقرار رہے۔ اور یہ سنگین گھڑی سلامتی کے ساتھ گزر جائے۔ اتنا کہہ کر خضرت قطب الدین بختیار کاکی رح رو پڑے تھے۔ پھر خضرت سلطان ہند نے عالم خواب میں اس جان باز طریقت کوتسلی دیتے ہوئے کہا قطب صبر کرو زمانہ کو کتنا ہی ناگوارہ ہو گزرے مگر اہل یقین ہر حال میں غالب رہیں گے ۔ شکست تمہارے دشمنوں کا مقدر بن چکی ہے ۔ انہیں اپنی تمام قوتیں آزما لینے دو عنقریب ان کی گردنیں طوق رسوائی کے بھوج سے جھک جائیں گی خاندان چشت کے لیے اللہ کافی ہے خدا کی قسم وہ اپنی کوششوں میں ہر گز کامیاب نہیں ہو سکتے سلطان شمس الدین التمش سے کہو کہ اس مقدمے کو میری آمد تک ملتوی کر دیا جائے ۔ خواب ختم ہو چکا تھا تھوڑی دیر بعد سلطان ہند کی آنکھ کھل گئی۔ آپ ساری رات سو نہ سکے یہاں تک کہ فجر کی آزان ہو گئی ۔ نماز ادا کرتے ہی آپ نے اہل خانہ کو اپنے عزم سفر سے آگاہ کیا۔ دہلی میں ایک ہنگاما برپا تھا خضرت قطب رح کے مخالفین جوش مسرت میں آپے سے باہر ہو گئے تھے اور عقیدت مندو کے حلقے میں شدید اضطراب نمایا تھا۔ دہلی کی در دیوار پر وحشت حیز سناٹا تھا شہر کے بیشتر لوگ اداس تھے کہ ان کا روحانی بپیشواہ تہمت کی خوف ناک آندھیوں کی زد میں تھا۔ اور خود حضرت قطب الدین رح کی یہ حالت تھی کہ آپ کی بے چین نگاہیں اس شاہرہ پر جمی ہوئی تھیں جہاں سے گزر کر سلطان ہند دہلی پہنچنے والے تھے۔ آخر کشمکش انتظار ختم ہوا سلطان ہند طویل مسافت تہے کرنے کے بعد دہلی تشریف لے آئے ۔ آپ کی آمد سے دہلی کے مسلمان خوشی سے سرشار تھے ۔ ہجوم گھروں سے نکک کر خانقاہ کی طرف بڑھ رہا تھا ۔ کچھ دیر بعد سلطان ہند اپنے خلیفہ اکبر حضرے قطب رح کے ہمراہ قلعے میں تشریف لائے قلعے کے باہر کھڑے بے شمار انسانوں کے سر عقیدت سے جھک گئے ۔ سپاہی جو پیرے پر کھڑے تھے انہیں پہلی بار معلوم ہوا کہ اصلی بادشاہت اسے کہتے ہیں ۔ سلطان التمش حضرت سلطان ہند خوجہ معی الدین چشتی کو شاہی اعزاز و احترام کے ساتھ دربار تک لانا چاہتا تھا لیکن آپ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اس خاطر مدارات سے سلطان شمس الدین کی جانبداری ظاہر ہو گی اور عدالت کا وقار مجرو ہو جائے گا۔ جب سلطان ہند دربار میں داخل ہوئے سلطان شمس الدین التمش اپنی نشست سے اٹھ گیا ۔ اس کے ساتھ تمام امراے دربار بھی کھڑے ہو گئے ۔ یہا تک کے قاضی عدالت کو بھی اپنے فراماں رواں کی تلقید کرنی پڑی ۔ سلطان ہند نے باآواز بلند کہا آج یی احترام کا مظاہرہ جاہز نہیں۔ قاضی سے پوچھا کیا مدعی عورت اور اس3 کا بچہ عدالت میں خاضر ہو چکے ہیں ۔ قاضی نے کہاں جی ہاں ۔ قاضی نے دعوی پیش کرنے کی کوشس کی سلطان ہند نے کہا جس دعوے کی زمانے میں تشہیر ہو چکی ہے اسے دورانے کی ضرورت نہیں۔ میں صرف عورت اور اس کے بچے کو دیکھنا چاہتا ہوں ۔ سلطان ہند نے عورت سے کہا یہ کیسی قیامت ہے کہ تم جیسی خانہ دار عورت کو بھرے دربار میں میں حق طلب کرنے کے لیے آنا پڑا ۔ سلطان ہند کی نظریں فرش پر جمی ہوئی تھیں اور چہرہ سرخ ہو رہا تھا ۔ عورت پردے میں تھی کہنے لگی میں خود یہاں نہیں آئی ہوں خضرت قطب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ان سے پوچھئے ۔ یہ میرے غیر شرعی شوہر ہیںطویل دلائل دینے کے بعد عورت نہیں مانی پھر سلطان ہند نے گواہ پیش کرنے کے لیے قاضی کو کہا چار گواہ عدالت میں پیش کیے گئے جب سلطان ہند ان سے سے گوائی دینے کو کہا لیکن ان کی زبان زرا بھی جنبھش نہیں کر سکی ۔ یہ خاموشی سے کھڑے دیکھتے رہے ۔ عورت چلانے لگی آج کیوں خاموش ہو گئے ہو۔ دو مہینے کا بچہ بھی رو رہا تھا عورت سلطان التمش سے فیصلہ سنانے کو کہہ رہی تھی مزید میرا تماشا کیوں بنا رہے ہو ۔ سلطان ہند نے کہا خاموش بچہ سے بھی کہا بچے خاموش ہو جا اچانک جو بچہ رو رہا تھا خاموش ہو گیا پورا مجمہ دیکھ رہا ہے ۔

کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
خواجہ محی الدین چشتی رح نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا میں نے بیت کوشش کی کہ یہ اذیت ناک حقیقت دنیا پر ظاہر نہ ہو تو علیم و خبیر ہے کچھ عاقبت نااندیش لوگوں نے میرے اور قطب کیلے عافیت کا کوئی راستہ باقی نہیں چھوڑا ۔ خدا وند! تجھ سے تیرا یہ عاجز بندہ معلی الدین رحم اور معافی کا طالب ہے۔حضرت سلطان الہند نے یہ مختصر دعا مانگی اور بچے کے قریب آگئے ۔اہل دربار کی سانسیں رک گئی ۔
اے جان معصوم تو بے قصور ہے ہر شخص کو اپنا بوجھ اٹھانا ہے میں تجھےبتکلیف دینا نہیں چاہتا تھا مگر تیرے ماں باپ نے ایک ایسے شخص پر تہمت لگائی ہے جو مجھے روئے زمین پر سب سے زیادہ عزیز ہے ۔ تجھے کیا پتہ کے میں کتنی راتوں سے بے خواب ہو میرے بے اداریوں کو دیکھ ۔۔۔۔۔ اور قاضی عدالت کو ۔۔۔۔ اہل دربار کو اور ان لوگوں کو جو قطب کے رسوائیوں پر جشن منا رہے ہیں ۔۔۔۔اپنے باپ کا نام بتا دے ۔
سلطان ہند کی پر جلال آواز ابھری اور لوگو ں کے دلوں میں اترتی چلی گئی ۔ ایک ثانئے کے لیے دربار پر گہرا سکوت چھا گیا ۔ دوسرے ہی کم ہے بچے کی آواز سنائی دے رہی تھی ۔ میرا باپ سردار شمس الدین التمش کے دربار کا ایک معزز سردار ہے ۔ یہ کہہ کر بچے نے اس شخص کا نام بتا دیا اور خاموش ہو گیا ۔ اس کی آواز سنتے ہی دربار شاہی میں ایک زلزلہ سا آگیا ۔
عورت پر بھی لرزہ تاری ہو گیا ۔ تمام اہل دربار رو رہے تھے سلطان ہند حضرت خواجہ محی الدین چشتی رح بھی آب دیدہ ہو گئے۔ پھر سلطان ہند نے حضرت بختیار کاکی رح کو تسلی دیتے ہوئے فرما یا ۔ فرزند! یہ آزمائش تو ہمیشہ سے ہی اہل ایمان کا مقدر رہی ہے ۔ تم خوش نصیب ہو کے وقت کی عدالت میں معصوم ٹھہرے ورنہ یہاں کچھ جاں سوختہ عشق ایسے بھی تھے جو دنیا کی بخشی ہوئی تہمتوں کو اپنے کفن میں سجا کر زمانہ سے رخصت ہو گئے ۔ اب ان کا مقدمات کا فیصلہ میدان حشر میں ہو گا۔

تحریر لیاقت علی چودھری راجوری

Leave a Comment

Poll

[democracy id="1"]

Share Market

Also Read This

Gold & Silver Price

today weather

Our Visitor

0 9 1 8 9 0
Users Today : 19
Users Yesterday : 65