جی این ایس آنلائن نیوز پورٹل
راجوری جنوری ۹
دنیا میں انسان کو انسانی مقاصد و فرائض تک پہنچانے کے لیے سب سے ضروری چیز تعلیم و تربیت ہے، دنیا کو جیتنے کے لیے اور دنیا کو بدلنے کے لیے اگر کوئی طاقت ور ہتھیار ہے تو وہ تعلیم ہے یہ کہا ہے دنیا کے سب سے طاقتور انسان جنہیں ہتھیاروں کا بادشاہ مزائل مین کے القاب سے دنیا جانتی ہے جناب ڈاکٹر اے پی جے عبدلکلام Education is the most powerful weapon which you can used to change the world .
تعلیم انسان کو اس مقام پر پہنچا دیتی جہاں کبھی کوئی سوچ بھی نہیں سکتا ہے۔
تعلیم انسان کو جہالت و ظلمت کے گھپ اندھیروں سے نکال کر علم و عرفان اور شعور و آگہی کی زینت سے مزین کرتی ہے، اور اس کا مقصد ایک ایسا معاشرہ اور ماحول تشکیل دینا ہوتا ہے جہاں مختلف الطبع لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی امداد و دست تعاون پیش کرنے کے ساتھ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا سلیقہ سیکھ کر سکون کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں۔ تعلیم و تربیت کو مختلف تہذیبی دائروں میں امن و سکون کی علامت سمجھا جاتا ہے،
جہاں پڑھا لکھا طبقہ رہائش پذیر ہے وہاں کبھی مار دھاڑ قتل غارت کے معاملات رونما نہیں ہوتے ہیں۔ بلکہ اونچی آواز میں بات کرنا بھی یہ لوگ مناسب نہیں سمجھتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اگر معاشرے کی صحیح تعلیم وتر بیت نہ کی جائے اور اس اشرف المخلوقات کو علم سے آراستہ نہ کیا جائے تو یہ جانوروں سے بھی بدتر ہوجاتے ہیں۔ اور ایسے جرائم و تباہ کاریوں کا ضامن بن جاتے ہیں۔ جس کے منفی اثرات کی وجہ سے پورا معاشرہ متاثر ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس جب انسانی ذہن اوائل عمری میں تعلیم و تہذیب کی اعلیٰ اقدار و روایات کے جانب مائل کردیا جائے، صحیح تربیت کی جائے، تو معاشرے میں امن واستحکام کی راہ میں کوئی روکاوٹ حائل نہیں ہوسکتی۔ ان کے روشن مستقبل کے ساتھ ساتھ گردونواح کا پورا معاشرہ ترقی پذیر ہوجاتا ہے۔ اور ہر گھر سے روشن چراغ نظر آتا ہے۔
تعلیم کو وہی لوگ اپنا ہتھیار بناتے ہیں جو روشن دماغ ہوتے ہیں جن کے اندر اپنے ساتھ دنیا کو بدلنے کا مصمم اردہ ٹھاٹھیں مارتا ہو ۔ پیرپنجال میں شعبہ تعلیم میں کارنامے سرانجام دینے والے تھنہ منڈی کے رینہ خاندان کے زیربحث چشم و چراغ میں تقریباؑ آدھا درجن شخصیات کے جوہر و کمالات قابل ذکر ہیں۔ جن کا تذکرہ لازمی ہے جنہوں نے تعلیم سے ایک معاشرہ کی تقدیر کو بدل کر رکھ دیا یے ۔ جناب خورشید احمد بسمل رینہ صاحب جنہوں نے تھنہ منڈی کے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے کلیدی کردار ادا کیا ہے اور اپنی زندگی صرف کر دی ہے ۔ پچاس سالوں سے لگاتار یکے بعد دیگرے نسل کو تعلیمی سانچہ میں ڈال کر علم کے زیور سے آراستہ کیے جارہئے ہیں۔ اس کے ساتھ انہوں نے ان کے بنیادی تبدیلی ٬ بیداری ٬ جدوجہد ٬ ہمت ٬ دوراندیشی کی جنبش کو بھی زندہ کیا ہے ۔
انہوں نے اپنے علاقہ میں ہر فرد کی بنا نسل رنگ مذہب کے بچوں کے ذہنوں کو تراشنے ان کے نظریات کو بدلنے اور ان کے اندر پختہ عزائم کا شعلہ بھڑکانے کے لیے جنگی سطع پر کام کیا ہے اور آج بھی یہ ان کا مشن جاری وساری ہے ۔ اس مشن کو انہوں نے درس و تدریس کا نام دیا جس کے لیے قلم ٬ کتاب اور کاپی بطور ہتھیار استعمال میں لایا۔ جس کے لیے انہوں نے ایم ای ٹی ہائراسکینڈری اسکول تھنہ منڈی کا قیام عمل میں لایا ۔
اس مشن میں ان کی رکاوٹ نہ عمارتیں اور نہ پیسہ بنا ٬ نہ تعلیم یافتہ اساتزہ کرام کی عدم دستیابی نے ان کے پاوں میں زنجیریں ڈالی اور نہ لوگوں کے عدم تعاون نے ان کے ہاتھوں کو بیڑیاں ڈالی بلکہ دن بدن یہ بڑھتے ہی چلے گئے جس کا محاسبہ آج چار دشک کے بعد ریاست کے متعدد اضلاع کی باگ ڈور ان کے ہی اسکول کے فارغ التحصیل طلبہ کےہاتھ میں ہے۔ ہر شعبہ میں ہر مقام پر اعلی صلاحیتوں سے نمایاں کارگردگی سرانجام دے رہئے ہیں۔ جس سے علاقہ کا نام اور اپنا نام بھی روشن کر رہئے ہیں۔ یہ تھنہ قصبہ کے رہنے والے ہیں جہاں اکثریت کشمیری برادری کے لوگوں کی ہے۔ لیکن انہوں نے وہاں کے گوجر برادری کی ایک بڑی تعداد کو علم کے زیور سے آراستہ کیا ہے جن میں بہت سے آج آئی اے ایس کے اے ایس قانون دان ڈاکٹر پروفیسر نمایا کارگردگی سرانجام دے رہئے ہیں۔
تھنہ منڈی رینہ کنبہ کی خدمات جلیلہ میں بسمل صاحب کا کردار منظرعام پر دکھائی دے رہا ہے۔ ہر سال سینکڑوں طلبہ ان کے اسکول سے الگ الگ شعبہ میں تکنیکی و غیر تکنیکی تعلیم و اعلی تعلیم کے لیے کالج و یونیورسٹیوں میں اپنا نام درج کروا رہے ہیں۔
جناب ڈاکٹر شکیل احمد رینہ صاحب ضلع راجوری کے شعبہ تعلیم میں ہر زباں کے قابل احترام مشہور و معروف شخصیت کہلاتے ہیں۔ یہ ایک درویش صفت انسان کہلاتے ہیں ۔ متقی پرہیز گار صوم و صلوات کے پابند ایک سچے مسلمان کہلاتے ہیں۔ یہ بلند اخلاق میٹھئ زبان چہرے پر مسکراہٹ نرم دل بہت پی سچے انسان ہیں ۔ پروفیسر ڈاکٹر شکیل احمد رینہ صاحب شعبہ ریاضیات کے صوبہ جموں کے ایک نامور استاد مانے جاتے ہیں۔ انہیں اپنے شعبہ میں نمایا کارگردگی کی بنا پر سرکار نے بہت سے اہم اعزازات سے نوازا ہے ۔ ان سے تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ اس وقت ریاستی بیروکریسی آئی اے ایس ٬ کے اے ایس ٬ شعبہ تعلیم ڈاکٹر پروفیسر٬ استاد ٬ قانون دان٬ جج صاحبان انجینیر٬ ڈاکٹر بلکہ ہزاروں کی تعداد میں بڑے عہدوں پر فائز ہر سمت نظر آ رہے ہیں۔ یہ تعلیم میں اپنی خدمات جلیلہ کی بنا پر ایک بڑا مقام رکھتے ہیں۔ پیرپنجال خطہ میں ان کا متبادل اپنے مضمون میں حال وقت تک دور دور تک نظر نہیں آرہا ہے۔ صرف ان کا پڑھایا ہوا طالب علم ہی نہیں بلکہ ہر طالب علم اور علاقہ کے ہر پڑھے لکھے انسان کے دل میں ان کے لیے بےحد احترام ہے۔ تقریباؑ عرصہ چالیس سال تک یہ ڈگری کالج میں پروفیسر اور پرنسپل کے عہدے پر فائز رہئے ہیں اور ان کا مقصد درس وتدریس ہی رہا ہے۔ آج بھی ہر طالب علم ان سے ریاضیات میں تعلیم لینے کے لیے ترستا ہے۔
ان کی انسانی صفات سے ان کے خاندان کی تربیت چھلکتی ۔ ان کے ماں باپ کو سلام پیش کیا جاتا ہے کہ جنہوں نے گاوں کی سادہ زندگی بسر کرتے ہوئے اپنی اولاد کو ایسا انسانی خدمات کا ایسا ہنر سکھایا کے انہوں نے اپنے اخلاق کی بنا پر پورا علاقہ فتح کردیا ہے۔
جناب شفیق احمد رینہ صاحب رینہ کنبہ کے تیسرے انقلابی کارنامے اپنے نام رکھنے والے پائے جاتے ہیں۔ یہ جموں کشمیر ایڈمنسٹریٹیو سروسز کے سئنیر آفیسر پائے جاتے ہیں۔ انہوں نے پیرپنجال کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی خدمات میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بہترین صلاحیتوں اور اعلی تعلیم کے باوجود جن کو جھجک و ڈر کی وجہ سے روزگار حاصل کرنے میں جموں کے اندر مشکلات کا سامنا کرنا پڑھتا تھا ۔ ان کے لیے جناب شفیق احمد رینہ صاحب نے ایک پل کا کام کیا ہے اور انہوں نے راجوری پونچھ کے ہر قابل ترین شخص کو سروس سلیکشن بورڈ کے تحت اپنے مقام تک پہنچانے کے لیے ایک مسیحا کا کام کیا ہے۔
شفیق رینہ صاحب کے اندر راجوری سرزمین کی مٹی اس قدر رچی بسی ہوئی تھی کہ انہیں راجوری کے ہر فرد کو دیکھتے ہی خوشبو آجاتی اور اسے یہ پہچان لیتے صرف اسے پہچان ہی نہیں لیتے بلکہ اس کی صلاحیتوں کا وزن بھی کر لیتے ۔ اس مٹی سے انہیں اتنا پیار تھا کہ سندربنی سے لے کر بی جی تک کے ہر شخص کو ہر جائز مدد کے ساتھ اپنے مقام پر پہنچانے کی مکمل کوشش کی ہے۔ کیوں کہ راجوری پونچھ کے لوگوں کی آج سے بیس یا تیس سال قبل اتنی پہنچ نہیں ہوا کرتی تھی بول چال اور شرمیلا پن ان کی کامیابی میں رکاوٹ بن سکتی تھی کہ ان کو وہ مقام مل سکے اور یہ ہمیشہ عدم توجہ کی بنا پر نوکریوں سے محروم ہو جاتے اور عمر رسیدہ ہو کر کسمپرسی کی زندگی بسر کرتے ۔ لیکن شفیق صاحب کی کوششوں نے بنا مذہب رنگ نسل زات برادری صرف راجوری اور پونچھ کے نام سے انہیں سرکاری نوکری میں اپنا حق دلوانے کے لیے ایک سچے سپائی کا کام کیا ہے۔
یہاں ہزاروں گھر ان کی کوششوں کی وجہ سے آباد و روشن ہوئے ہیں۔ ان کے چولہے جلے ہیں ۔ سینکڑوں اعلی تعلیم یافتہ نوجوان جو عمر کی آخری حد کو پار کر رہے تھے اور آخری موقعہ تھا سرکاری نوکری میں انٹرویو دینے کے لیے ان کی زندگی اور تعلیم ضائع ہونے سے بچا لیا گویا کہ ان کی زندگی بچا لی۔ ان کی پہچان جتنی تھنہ منڈی میں تھی اتنی ہی سندربنی بنی کے نوجوانوں میں تھی ان کا سب کے لیے پیمانہ ایک ہی تھا حق دار کو اس کا حق پہنچانے کی اہم کوشش کی ہے۔ جس میں انہوں نے اپنے سرکاری منصب پر بیٹھ کر حق ادا کیا یے۔ جس کا تذکرہ ہمیشہ ہر زبان ہر رہتا ہے۔ اس لیے جہاں ان کے بھائیوں کا ہاتھ بچوں کو تعلیم دینے کے لیے طول میں رہا ہے ایسے ہی ان کے قلم کی سیاہی انہیں اپنے مقام تک پہنچانے کے لیے کبھی خشک نہیں ہوئی تھی۔ ان کا متبادل اس علاقہ سے ہمدردی اور دستشفقت سے لیس موجود نہیں ہے۔ اللہ تعالی ان کو اس کی جزا عطاء فرمائے گا۔
جناب مشتاق احمد رینہ صاحب رینہ کنبہ کے شعبہ تکنیکی سے وابستہ مشہور و معروف انجینیر جناب مشتاق احمد رینہ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد کچھ عرصہ درس وتدریس کا کام جاری رکھا ۔یہ انگریزی کے بہترین استاد ہیں ۔ اس کے بعد یہ محکمہ آر اینڈ بی میں بطور انجینیر تعینات ہو گے ۔ یہ اپنے شعبہ تلنیکی میں منفرد شخصیت رکھتے ہیں۔ جہاں انہوں نے پختہ سڑکوں و عمارتوں کی تعمیر کروائی ہے اسی کے ساتھ یہ سینکڑوں انجینیر کے استاد بھی ہیں جنہیں انہوں نے محکمہ کےاندر اصل تعلیم دینے اور عملی جامہ پہنانے کی صلاحیتوں سے لیس کیا ہے۔ ان سے سیکھے ہوئے بہترین انجینیر آج باخوبی اپنے کام سرانجام دے رہئے ہیں۔
ان کے اہم کارنامے جن میں انہوں نے اپنے گہرے نقوش چھوڑے ہیں سرکاری و غیرسرکاری عمارتین شامل ہیں۔ راجوری کی ہی نہیں بلکہ ایشا میں نمایا مقام رکھنے والی جامع مسجد عید گاہ راجوری کی تعمیر بھی شامل ہے ۔ اس کے ساتھ بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی کی سڑکیں بھی انہیں کے ہاتھوں وجود میں آئیں ہیں ڈاک بنگلوں راجوری کی جدید و بہترین عمارت بھی ان کے ہی کارنامے کا ایک نمونہ ہے ۔ ڈاک بنگلوں راجوری کے باہر کا پیدل چلنے والا راستہ جہاں بہت قیمتی جانیں بھی حادثہ کے شکار ہوتی تھی اس کی تعمیر بھی ان کی وسیع سوچ کا نتیجہ کا۔ یہ انگریزی کے جانے مانے سکالر بھی ہیں ۔ انگیزی کے یہ اسکول میں استاد بھی رہیے ہیں جہاں بہت طلبہ ان سے مستفید ہوئے ہین۔
پروفیسر اقبال احمد رینہ صاحب تعلیم کا ایک مشہورِ و معروف نام اس وقت ڈاگری کالج راجوری میں بطور پروفیسر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ یہ فزیکس کے پروفیسر ہیں ۔ ایک بہترین سکالر ہیں ایک ادیب بھی ہیں اور ایک پائے کے شاعر بھی ہیں۔ یہ شعلہ بیان مقرر بھی ہیں۔ ان کی تقریر علمی گفتگو پر منحصر سبق اموز اور ادب کے دائرہ میں بہت کچھ سکھاتی ہے۔ جس بھی کسی اسٹیج پر ہوں تو اس اسٹیج کی رونق دوبالا ہو جاتی ہے۔ ان کے منہ سے الفاظ پھولوں کی طرح ٹپکتے ہیں۔
ان کا انداز بیان ہر محفل کو چار چاند لگا دیتا ہے۔ یہ اکثر اسٹیج سکریٹری کے طور پر رونق اسٹیج نظر آتے ہیں۔ ۱۵ اگست آزادی کے دن اور 26 جنوری یوم جمہوریہ کے سرکاری پروگرام کے موقعہ پر یہ ضلع راجوری میں مرکزی پروگرام کی نظامت سنبھالنے ہیں جہاں یہ آزادی اور یوم جمہوریہ کے دنوں کی اہمیت کو پیش کرتے ہوئے اس پورے پروگرام کو بہترین طریقے سے سرانجام دیتے ہیں۔
جناب اقبال احمد رینہ صاحب کے صرف تھنہ منڈی ہی نہیں بلکہ ضلع بھر کے اندر اس وقت ہزاروں طلبہ الگ الگ شعبہ میں فرائض منصبی سرانجام دے رہئے ہیں۔ ان سے ہی تعلیم حاصل کرنے والے کچھ پروفیسر کے طور پر تعینات ہیں اور کچھ دوسرے اعلی عہدوں پر فائز ہیں۔ ان کا حسن اخلاق اتنا بلند ہے کہ جب اپنے کسی طالب علم سے بھی ملتے ہیں تو سر جھکا کر ان کی زبان پر وہی مٹھاس اور انداز وہی جیسے اپنے طلبہ سے نہیں بلکہ کسی عام آدمی سے ملاقات کر رہئے ہیں۔ یہ ایک بلند اور پھل دار پیڑ کی مانند اس قدر جھکے ہوئے ہیں کہ ان کےپاس سے گزرنے والا ہر شخص مستفید ہوتا جاتا ہے۔
ان کی اس عمدہ تعلیم تربیت اور انسانیت سے لیس بلند عزائم کے پچھے ان کے والدین کی عمدہ تربیت ہے ۔ ان کو ماں کی گود نے وہ درس دیا ہے جو کبھی انہیں اکڑنے ہی نہیں دیتا جہاں بھی یہ کھڑے ہوتے ہیں مانو وہیں تہذیب و تعلیم کا منبع ہیں۔ دین ان کے اندر رچا بسا ہے نمازی پرہیزگار دیندار و والدین کی خدمات ان کی زندگی کا مقصد ہے۔
ان سے ان کے مطعلمہ صرف مضامین کی تعلیم حاصل نہیں کرتے بلکہ زندگی گزارنے کی اور مذہبی رواداری کا سبق بھی سیکھتے ہیں ۔ ادیب بھی بنتے ہیں شاعر بھی بنتے ہیں۔
ان کا تعلیمی دائرہ صرف تھنہ منڈی ہی نہیں بلکہ پیرپنچال کے قریہ قریہ میں تعلیمی زیور سے آراستہ سماج کو بہتر بنانے اور آگے لے جانے میں الگ الگ شعبہ میں موجود ہیں۔
لیاقت علی چودھری 7051070548 9419170548