حضرت نظام الدین اولیا محبوب الہی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ کہ جب شیخ السلام حضرت بہاالدین زکریا رحمتہ اللہ علیہ سمرقند پہنچے تو وہاں جزام یوں (کوڑھیوں) کا گروہ انسانی آبادی سے الگ تھلگ ایک غار میں رہتا تھا۔ اتفاق سے ایک دن حضرت شیخ ببہالدین زکریا رحمتہ اللہ علیہ اس طرف جا نکلے۔ ایک خوفناک مرض میں مبتلا ہونے کے، باعث مقامی لوگ ادھر جاتے ہوے بھی ڈرتے تھے۔ جزام یوں نے ایک انسان کو اپنی طرف آتے دیکھا تو انہیں شدید حیرت ہوئی پھر جب حضرت شیخ بہاالدین زکریا رحمتہ اللہ علیہ قریب پہنچے تو جزامی غار سے نکل آے۔ اور آپ کے گرد جمع ہو گے انہیں یقین تھا کہ آنے والا کو ئی عام انسان نہین ہے۔
بہت دنوں بعد ادھر کوئی انسان آیا تھا۔ حضرت شیخ بہاالدین زکریا رحمتہ اللہ کو دیکھ کر جزامی حیرت زدہ لہجے میں کہنے لگے۔ ہمیں اہل دنیا نے چھوڑ دیا نہ وہ ہماری طرف آتے ہیں اور نہ ہمیں اپنی طرف آنے دیتے ہیں۔ حضرت شیخ بہاالدین زکریا رحمتہ حضرت نے جزام یوں کی طرف دیکھ کر فرمایا۔ تم لوگ مجھ سے کہا چاہتے ہو۔ آپ کہ دعاوں کا طالب ہین۔ جزام یوں نے روتے ہوے عرض کیا۔ حضرت شیخ بہاالدین زکریا رحمتہ اللہ علیہ نے ان سے فرمایا تم خود اپنے حق میں دعا کیوں نہیں کرتے۔ اس کی رحمت مایوس ہو کر ایک غار میں آ پڑے ہو ۔ بہت رویے بہت فرمادیں کی مگر وہ ہماری نہیں سنتا جزامی حضرت شیخ بہاالدین زکریا رحمتہ اللہ علیہ کے سامنے اپنی حالت زار بیان کر رہے تھے۔ آخر حضرت شیخ بہاالدین زکریا رحمتہ اللہ علیہ نے غار کے قریب واقع ایک تالاب میں وضوو کیا۔ پھر دو رکعت نماز ادا کی۔ اس کے بعد جزام یوں کے لیے دعا خیر کرنے لگے۔ ناگہاں ایک صدا غیبی سنار دی جسے جزام یوں نے بھی سنا۔ “بہاالدین تمیں نہیں معلوم یہ گروہ زیر عتاب ہے اس لیے ان لوگوں کا معاملہ ہماری بارگاہ میں پیش نہ کرو ندا غیب سن کر جزام یوں پر لرزہ طاری ہو گیا۔ اب وہ اپنی صحت و زندگی سے مکمل طور پر مایوس ہو چکے تھے کہ ان کے لیے ایک مرد خدا بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ حضرت شیخ بہاالدین زکریا رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی دعا جاری رکھی آ پ کے لہجے میں مزید رقت پیدا ہو گئی تھی۔ “ا ے میرے پروردگار تیری بارگاہ کرم کے سوا یہاں کون سی بارگاہ ہے اگر میں ان لوگوں کا معاملہ تیرے دربار کرم میں پیش نہ کروں تو یہ مجبور و مقحور کس کے دروازے پر جائیں۔ گے۔ یہ کتنے بھی معتوب سہی مگر تیری رحمت ہمیشہ تیرے قہر پر غالب رہتی ہے۔ اپنی اسی رحمت بےپناہ کے صدقے میں انہیں معاف کر دے۔” بالآخر حضرت شیخ بہاالدین زکریا رحمتہ اللہ علیہ کی دعا قبول ہوئی اور آپ نے جزام یوں سے فرمایا کہ اللہ کا نام۔ لے کر اس تالاب میں غسل کریں۔ حالانکہ وہ کوڑھی ہمیشہ اس تالاب میں نہاتے تھے۔ مگر جب ایک مرد حق نے بیماروں کے لیےدعا کی تو وہ عام سا پانی شفا بن گیا۔ اور تمام جزام یوں کے بدن اس طرح صاف شفاف ہو گے۔ جیسے وہ کبھی اس خوف ناک مرض میں مبتلا ہی نہ تھے۔ اللہ کےولیوں کی شان یہ ہے کہ اللہ اپنے خاص بندوں کی دعا سے گناہوں کی وجہ سے مرض میں مبتلا کو شفا بھی دیتا ہے۔ یا اللہ ہمیں مانگنا نہیں آتا تو رحم فرما کیوں کہ تیری رحمت تیرے قہر پر غالب ہے۔ لیاقت علی چودھری۔
