حضرت بابا میاں لالدین رحمتہ اللہ علیہ سوڑہ پانی۔
راجوری کےگردنواں میں اولیاء اللہ کے مزارات چاروں اطراف بلند و فلک شگاف پہاڑوں سے ہمیشہ عوامی رہنمائی کےساتھ ساتھ دین کہ اشاعت و تراویج اور مسلمانوں کو قرآن اور سنت کی روشنی میں زندگی و عقبہ کو بہتر بنانے کے لیے پیکر رہے ہیں۔ بعض اولیاء کا قول ہے کہ ان کی حیات سے زیادہ ان کی قبریں فیضیاب ثابت ہوں گی، ان عقیدتمندوں کے لیے جو اولیاء کو انبیاء کا وارث سمجھتے ہیں۔
راجوری کے تھنہ منڈی نالے کے شاہدرہ شریف پہاڑ کی بلندی سے حضرت سید بابا غلام شاہ بادشاہ رحمتہ اللہ علیہ جہاں پورے جموں کشمیر کی رہنمائی فرماتے ہیں وہی شہنشاہوں کے شہنشاہ بھی ہیں۔ بادشاہوں کے بادشاہ بھی ہیں ۔ اولیاء کے امیر بھی ہیں۔ فقیروں کے مسیحا بھی ہیں ۔ خطہ کی پسماندگی اور خوشحالی بھی آپ کے دربار سے وابسطہ ہے۔ نسلوں کو تعلیم کے زیور سے آرستہ کرنا بھی آپ کے ہی نظر کرم سے ہے۔ علماء کا زریعہ معاش بھی آپ کے خزانہ سے مقرر ہے۔ مسجدوں کی تعمیر بھی وہی سے ہے۔ مدرسوں کے معاون بھی آپ ہی ہیں۔ ریاست کی سرکاریں بھی آپ کے در کی بھیک ہیں۔ دوسری طرف درہال کی وادی میں اولیاء کا مسکن ہے۔ حضرت بابا سائیں گنجی بادشاہ رحمتہ اللہ علیہ کے بعد جبڑ شریف والی سرکار اپنے مزارت میں آرام نہیں بلکہ اللہ کے حکم سے دین اور دنیا کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ جن کے مزار کو دیکھتے ہی اللہ یاد آجاتا ہے اور دین کے پیکر بننے کی راہ دکھائی دیتی ہے۔ ادھر حد متارکہ پر الگ الگ مقام پر سائیں چلا بادشاہ رحمتہ اللہ علیہ پلولیاں شریف کے بلند وبالا پہاڑ سے نظر کرم بناے ہوے ہیں وہیں ان کا مزار قائم مقام ہے۔ ادھر نگہوں کے پہاڑ کی اونچائی پر آپ کا مزار درد مندوں لا چاروں کا وسیلہ بنا ہوا ہے۔ اس طرف ایک پہاڑ خالی تھا۔ جہاں چچھیرا کا جنگل اور پہاڑ ہے وہاں پر اللہ کے ایک ولی حضرت سائیں جان محمد رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی حیات میں ہی مقبرہ تعمیر کروایا اور آج سے ایک سال قبل وصال فرما گئے تھے۔ وہاں پر ان کا آج دربار درخشندہ و تابندہ ہے۔
دوسری طرف راجوری کا پیڑی نالہ میں مشہور و معروف اللہ کے ولی کا آج اس مضمون میں تزکرہ کرنے کی کوشش کرنے جا رہا ہوں۔ اللہ مجھے ان پر روشنی ڈالنے کے لیےعقل سلیم عطا کرے۔ تاکہ ان کی سیرت اور زندگی کےپہلو کو لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہوے اور سمجھانے میں مدد مل سکے اور لوگ ان کے بتاے ہوے راستے کو اپنانے کی کوشش کریں۔ ہماری کہاں اتنی جرت کے اللہ کے کسی ولی کے ایک لمحے کی عبادت کو قلم بند کرسکیں۔ پھر بھی ایک کوشش ہے۔ اللہ قبول فرماے اور ہمیں بھی آپ ﷺ کے بتاتے ہوے راستے پر چلنے کی توفیق عطا کرے۔
حضرت بابا میاں لالدین صاحب رحمت اللہ علیہ کے پیدائش ترالہ کے علاقہ سوڑہ پانی کے مقام پر ہوئی آپ کے والد محترم حضرت میاں عبدالکریم المعرو سائیں چلا رحمتہ اللہ علیہ بھی اللہ ولی اور نیک بندہ تھے۔ اُن کے والد محترم حضرت بابا میاں فقیر رحمتہ اللہ علیہ تھے ۔ جن کے مزارات بھی سوڑہ پانی کے اردگرد اسی اونچی پہاڑی پر قائم مقام ہیں۔ حضرت بابا میاں لال دین رحمتہ اللہ علیہ نے تعلیم اپنے تایا جناب میاں رسمت رحمتہ اللہ علیہ سے حاصل کی یہ بچپن سے ہی نمازی پرہیزگار پاے جاتے تھے۔ اپنے استاد جو ان کے تایا صاحب بھی تھے ان سے چھوٹی عمر میں قرآن مجید کی مکمل تعلیم حاصل کی نماز اور دوسرے وضائف اور زکر اللہ کی تعلیم سے سرفراز ہوے۔
سوڑہ پانی جس جگہ کا نام ہے یہ بایک زمانہ میں شیروں کی پناہ گاہ تھی۔ یہاں جگل کے خطرناک جانور رہتے تھے۔ جب یہاں بابا صاحب رہائش پزیر ہوے تو اس جگہ جانوروں کے بہت پرانے اور نئے سر دیکھے گے اور شیر کا ٹھکانہ بھی تھا۔ لیکن حضرت بابا میاں لالدین رحمتہ اللہ علیہ کے آنے سے اس جگہ کو انہوں نے خالی کر دیا۔
آپ کے بہت کرامات دنیا بیان کرتی ہے ۔ اللہ نے آپ کو ہر مرض کو شفا کرنے کی طاقت بخشی تھی۔ انسانوں کے علاوہ جانوروں کی مہلک بیماریاں بھی آپ کی زبان سے نکلنے والے الفاظ سے ہی شفا ہو جاتی تھیں۔ آج بھی لوگ آپ کے دربار پر حاضری دیتے ہیں لنگر شریف کھاتے ہیں جو شفا ہے اور جانوروں کی شفا کے لیے وہاں سے پتے گھاس لاتے ہیں۔ جوانی میں بارھ سال تک رات کو شاہدرہ شریف اور صبح اپنے گھر میں ہوتے تھے۔ لوگ کہتے تھے آج بابا صاحب شاہدرہ شریف تھے لیکن یہاں کے لوگ کہتے کہ وہ تو صبح ہی اپنے گھر اور اپنے مال میں دیکھے گئے ہیں۔
آپ نے چالیس سال تک کبھی زمیں پر آرام نہیں کیا مطلب کہ چالیس سال تک صرف پاوں اپنے پاوں ہی زمیں پر رکھے یا زمیں کے اوپر بچھائی ہوئی کسی سونے والی چیز پر اپنے جسم کا کوئی حصہ نہیں رکھا۔ آپ اپنی جوانی میں عبادت کے ساتھ ساتھ اپنے مال مویشیوں کی دیکھ بال کیا کرتے تھے۔ ان ہی کے لیے پتے گھاس اکٹھے کرنے کے لیے رسیوں کا ایک جال (ترنگڑی) بنائی ہوتی تھی۔ دن کو اس میں مویشیوں کا گھاس پتے لاتے اور رات کو اسی ترنگڑی کو مکان کے چھت کے ساتھ چاروں اور سے باندھ دینا اور وضعو کے بعد اس میں عبادت کے لیے تشریف فرما ہو جانا۔ اس حال میں آپ کے چالیس سال گزرے۔
آپ کی کُل عمر شریف ۱۱۰ سال کی ہے۔ آپ نے سو سال کی عمر تک کبھی نماز تہجد قضا نہیں کی ہے۔ آپ بچپن میں ہی نمازی بن گئے تھے۔ آپ کے استاد آپ کےتایا صاحب جن کا نام حضرت میاں رسمت رحمتہ اللہ علیہ ہے ۔ جب حضرت بابا میاں لال دین رحمتہ اللہ علیہ دس سال کی عمر میں اپنے تایا و استاد جی کو فرمانے لگے مجھے زکر اور نماز تہجد کی اجازت دی جاے۔ تو آپ کے تایا حضرت رسمت علیہ رحمہ فرمانے لگے ابھی آپ پر نماز فرض، فرض نہیں ہے تو آپ کہاں تہجد کی بات کرتے ہیں۔ اس بات پر حضرت بابا میاں لال دین رحمتہ اللہ علیہ فرمانے لگے ََآپ کا کیا جاے گا مجھ اگر اجازت دے دیں توََ۔ آپ کے اصرار پر آپ کو اجازت ہو گئی اس کے بعد آپ کل عمر شریف 110سال ہوئی ہے۔ آپ فرماتے تھے کہ دس کی عمر میں نماز کی شروعات کی تھی اور پہلے دس سال نکال کر اس کے بعد کے سو سال لگاتار کبھی نماز تہجد قضا نہیں ہوئی ہے۔ ہمیشہ اللہ کے زکر میں رہا کرتے تھے۔
حضرت بابا غلام شاہ بادشاہ رحمتہ اللہ علیہ کے دربار شاہدرہ شریف کا سفر:
آپ کے والد حضرت میاں عبدلکر رحمتہ اللہ علیہ المعروف سائیں چلا رحمتہ اللہ علیہ بھی اللہ کے ولی تھے۔ آپ نے آخری عمر میں چھ سال تک لگاتار شاہدرہ شریف بابا غلام شاہ بادشاہ رحمتہ اللہ علیہ کے دربار کا سفر جاری رکھا۔ اس کے بعد آپ کا وصال ہو گیا۔ والد محترم کے حکم کے مطابق حضرت بابا میاں لال دین رحمتہ اللہ علیہ نے مزید چھ سال شادھرہ شریف جانے کا چلا پورا کیا اور اس طرح والد صاح کے وہ بارھ سال پورے کرنے کے لیے چھ سال تک شاہدرہ شریف تشریف لے جاتے رہے۔ جب ان کے بارے سال پورے ہو گے تو اس کے بعد آپ نے خود بارھ سال مزید شادہرہ شریف آنے جانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہ سفر آپ کا کیسے ہوتا تھے۔ اس کا کسی کو معلوم نہیں البتہ لوگ کہتے تھے کہ بابا صاحب رات کو شادہرہ شریف ہوتے اور صبح اپنے گھر میں لوگوں کو دکھائی دیتے تھے لوگوں کے مطابق اپنے کام کاج میں صبح مصروف ہوتے دکھائی دیتے تھے۔ سوڑہ پانی سے شاہدرہ شریف کی مسافت قریب ایک سو کلومیٹر کی ہے۔ یہ سفر کیسے تہہ کرتے تھے کب جاتے اور کب آتے اللہ بہتر جانتا ہے۔ البتہ آٹھارہ سال تک ان کا بابا غلام شاہ بادشاہ کےدربا میں حاضری کا سلسلہ چلتا رہا۔
ساٹھ سال تک لگاتار آٹھ پہرہ روزہ رکھا گیا۔
حضرت بابا میاں لالدین رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی زندگی میں 60ساٹھ سال تک لگاتار آٹھ پیر کا روزے رکھے ہیں۔ جن میں ان کہ صرف افطاری ہوا کرتی تھی اور افطاری میں کھانے کا یہ عالم تھا کہ صرف دو تولہ کی دو دو چھوٹی چھوٹی روٹیاں کھایا کرتے تھے۔ اور اس کے بعد پھر دوسرے روز شام کو اسی سائز کی روٹیاں پیش ہوتی یہ سلسلہ زندگی میں ساٹھ سال یعنی چھ دشک تک جاری رہا۔ یہ تھی اپنے اللہ سے محبت کا عالم کہہ اس کی یاد میں اور صرف اللہ کے راضی کرنے کے لیے اور اللہ اور بندے کے درمیان جس کا رابطہ ہے وہ عبادت تھی آپ کی جسے کوئی دوسرا شحص دوہرا نہیں سکتا ہے۔
حضرت بابا عبیداللہ المعروف جی صاحب رحمتہ اللہ علیہ سے ملاقات۔
جوانی کے دور میں حضرت بابا میاں لال دین رحمت اللہ علیہ کے کان میں شدت کا درد شروع ہوگیا۔ اسی دوران آپ کی زبان مبارک بھی چالیس دن تک بند رہی۔ان دنوں حضرت بابا جی صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا راجوری کے درہال علاقہ کا دورہ تھا۔ کسی نے آپ سے فرمایا کہ درہال میں جی صاحب آے ہوے ہیں۔ تو آپ وہاں جائیں ان سے کچھ علاج کروا لیں۔ لہزا یہ سیدھے درہال چلے گئے وہاں جی صاحب اپنے خلیفہ کے گھر تشریف فرما تھے لوگوں کا جمع غفیر تھا۔ حضرت میاں لال دین رحمتہ اللہ علیہ نے ملاقات کی بہت کوشش کہ لیکن نہیں ہو سکی ایسے تین دن گزر گئے۔۔ البتہ کوشش لگاتار جاری رہی ایک دن لوگوں کے درمیان آپ کو زورسے دھکا لگا تو اپ کے منہ سےہاے نکل گی۔ اندر حضرت جی صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے کان مبارک تک یہ آواز پہنچ گئی۔ حضرت جی صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا جس آدمی کی یہ آواز تھی اسے فوراًٖ میرے پاس لے آو۔ آپ کو لایا گیا ملاقات ہوئی تو جی صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کیا چاہتے ہو کیا بات ہے۔ حضرت بابا سائیں لال صاحب رحمتہ اللہ علیہ فرمانے لگے مجھے کان میں درد ہے اس کو کچھ دم کر دیں دوسرا مجھے بیعت فرما دیں۔ جی صاحب نے فرمایا کان کو دم تو میں کر دوں گا لیکن آپ کی بیعت میرے پاس نہیں ہے وہ آپ کا حصہ کہیں اور ہے۔ حضرت میاں لال دین رحمتہ اللہ علیہ تھوڑا پریشان ضرور ہوے اس کے بعد اجازت ہوئی گھر تشریف لے آے۔ رات کو خواب میں اشارہ ہوتا ہے کہ آپ بیعت کے لیے ایوان شریف گجرات میں تشریف لے جائیں آپ کا حصہ وہاں پر ہے۔ صبح ہوئی ایوان شریف کی کھوج شروع کر دی کہاں ہے کس ملک میں ہے البتہ اس وقت ایک ہی ملک تھا ہندوستان اس کے علاقہ میں پڑھتا تھا۔ ایک شخص علیم نامی ترالہ گاوں کا ہی مل گیا جو ایوان شریف جایا کرتا تھا اس سے ملاقت کی اور فرمانے لگے مجھے بھی ایوان شریف جانا ہے لے چلیں۔ انہوں نے کہا کوئی بات نہیں آپ تیار ہوجائیں۔ جس دن جانا ہو گا بتا دیا جاے گا۔ البتہ حضرت بابا میاں لال دین رحمتہ اللہ علیہ نے سفر کے لیے اخراجات کا بندوبست کیا اور ایک دن گجرات کے سفر پر نکل گئے۔ ایوان شریف پہنچنے پر دیکھا گیا کہ وہاں پر حضرت قاضی سلطان محمود عارفین رحمتہ اللہ علیہ لوگوں کو فرمارہے ہیں سبھی لوگ اپنے اپنے علاقہ واپس چلے جائیں۔ اتنے میں حضرت بابا میاں لال دین رحمتہ اللہ علیہ پر نظر پڑھتی ہے تو انہیں فرمانے لگے آپ کہا جاو گے۔ انہوں نے کہا حضرت میں لالہ موسیٰ ایک جگہ کا انام ہے وہاں حکیم کے پاس جاوں گا۔ مجھے کچھ کان میں دوائی ڈلوانی ہے۔ حضرت قاضی سلطان محمود عارفین رحمتہ اللہ علیہ فرمانے لگے میری طرف سے آپ کو اجازت نہیں ہے۔ آپ ادھر ہی ٹھہر جاو۔ اُن کے حکم کے مطابق آپ رات کو وہاں ہی تشریف فرما رہے۔ رات کو بھی اپنی عبادت حسب معمول ہوئی۔ صبح جب آپ فجر کے لیے وضو بنانے لگے تو آپ کے ہاتھ کان کو لگتے ہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ کان بالکل ٹھیک ہیں۔ آپ فوراً دوبارہ تصدیق کرتے ہیں تو کان کے اندر اور باہر جو زخم تھا۔ یا جو بھی زخم تھا ٹھیک ہو چکا تھا۔ اس کے بعد وہاں پرحضرت بابا سلطان محمود عارفین رحمتہ اللہ علیہ سے بیعت بھی لی گئی۔ اس کے بعد بھی قاضی سلطان محمود عارفین رحمتہ اللہ علیہ سے ملاقات ہوئی اس کے بعد اجازت بھی ہوئی اور گھر تشریف لاے۔ لیکن مرشد کے بغیر سکون نہیں تھا آنا اور جانا شروع رہا کب جاتے کب آتے یہ وہی جانتے ہیں۔ جب تک پیرومرشد باحیات رہے آپ جاتے رہتے تھے۔
حضرت بابا میاں نظام الدین لاروی رحمتہ اللہ علیہ کی حضرت بابا میاں لال دین رحمتہ اللہ علیہ سے ملاقات۔
ایک مرتبہ حضرت بابا جی صاحب رحمتہ اللہ علیہ اپنے صاحبزادے جناب حضرت بابا میاں نظام الدین لاروی رحمتہ اللہ علیہ سے فرماتے ہیں۔ راجوری کے فلاں علاقہ میں ایک بہت مرتبہ والا اللہ کا ولی ہو گا آپ اس کے پاس جایا کریں۔ اس کے کچھ عرصہ بعد جناب حضرت بابا میاں نظام الدین لاروی رحمتہ اللہ علیہ اپنے صاحبزادے جناب حضرت بابا میاں بشیر احمد لاروی مدضلہ علیہ کے ہمراہ راجوری تشریف لاتے ہیں اور ان کے ہمراہ لاح والے پیر صاحب بھی تھے آپ فرماتے ہیں کہ ہمیں آج فلاں جگہ کسی سے ملاقات کے لیے جانا ہے۔ حضرت بابا میاں بشیر احمد لاروی مدضلہ علیہ یہ سن کر فرمانے لگے آپ کو ملنے یہاں ہزاروں لوگ آتے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ ہمیں کسی سے ملنے جانا ہے۔ لیکن آپ یہاں سوڑہ پانی تشریف فرما ہوے۔ حضرت بابا میاں لال دین رحمتہ اللہ علیہ سے ملاقات ہوئی رات کو بھی ادھر ہی ٹھہرے۔ دونوں بزرگوں نے اپنے ہی انداز میں ملاقات و گفتگو کی جس میں یہ تزکرہ بھی ہےکہ حضرت جی صاحب کی منزل کے متعلق گفتگو ہوئی حضرت بابا میاں نظام الدین لاروی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جی صاحب کی منزل کے متعلق آپ کیا کہیں گے۔ اسی دوران دونوں بزرگوں کی آنکھیں ملی ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور سب کچھ دیکھا گیا۔ پھر حضرت بابا میاں لال دین رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر نبوت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل نہ ہوتی تو حضرت بابا جی صاحب رحمتہ اللہ علیہ بھی اللہ کے نبی ہوتے۔
اس کے بعد یہاں ایک دوسرا واقعہ بھی پیش آیا کہ حضرت بابا میاں بشیر احمد لاروی مدضلہ رات کو باہر رفیع حاجت کے لیے گئے پوری زمیں پر اللہ کے زکر کی آوازیں آرہی ہیں۔ آپ واپس آجاتے ہیں۔ اسی دوران حضرت بابا میاں لال دین رحمتہ اللہ علیہ کسی شخص کو فرماتے ہیں کہ صاحبزادے کو فرمائیں کہ فلاں جگہ پتھر کے پاس جائیں ۔ وہاں آپ کو جگہ مل جاتے گی۔
ایسے بہت قصہ ہیں جنہیں کسی مضمون میں مکمل کرنا کسی کے بس کی بات نہیں بہت سے کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ البتہ ہمارے پاس ان اولیاء اللہ کا تزکرہ کہیں تحریری بہت کم رقم ہے۔ جس سے ہم ان کی پہنچ کو پڑھ سکین۔
میرے گھر میں بہت سے قصہ جڑے ہیں ان سے اور ان کے دربار شریف سے۔
آپ کے وصال کے بعد گدی نشین آپ کے صاحبزادے جناب حضرت میاں احمد دین رحمتہ اللہ علیہ قائم ہوے دوسال قبل ان کا بھی وصال ہو گیا ہے۔ میں نے بھی ان کے نماز جنازہ میں شرکت کی تھی لیکن سامنے سے دیکھنے کا عالم یہ تھا کہ اس پورے پہاڑ پر کوئی بھی جگہ خالی نہیں تھی لوگوں سے پورا علاقہ بھرا ہوا تھا یہ مخلوق کہاں سے آئی تھی لیکن جدھر دیکھو لوگ ہی لوگ تھے البتہ جسے جہاں جگہ ملی وہ صف وہیں بنائی گئی۔ اور ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ ان کی نماز جنازہ حضرت مولانا خطیب محمد حنیف صاحب انارکلی والے نے ادا کروائی۔ ان کے پاس جانے اور ان کی کرامات کا ایک واقعہ کا راقمالعروف بھی شاید ہے کہ اکثر میری والدہ نسبتی کو کسی چیز کا سایہ ہو جاتا اور یہ بے خوشی کے عالم میں چلی جاتی میں ہمراہ چند لوگوں کے انہیں سوڑہ پانی لے گئے جوں ہی سامنے والے سڑک کے موڑ سے گاڑی زیارت کے سامنے ہوتی ہے۔ تو ایک دم سے انہیں حوش آجاتی ہے۔ اور دریافت کرتے ہیں ہم کہاں جارہے ہیں۔ گھر چلو البتہ وہ جس چیز کا سایہ تھا چھوڑ کر چکی گئی اور یہ معمول کے مطابق ہو گے۔ پھر اس کے بعد حضرت میاں احمد دین رحمتہ اللہ علیہ کے درمیاں ہم بیٹھے رہے انہوں نے دعا بھی کی۔ اس کے بعد جو وہ ہمیشہ رہنے والی وبا تھی آج کہی سال گزر جانے کے بعد بھی نہیں ہوئی ہے۔ میرے بڑے بھائی میری والدہ کے ہمراہ وہاں جایا کرتے تھے جب وہ بھرتی ہوے پہلی بار وہاں گئے اور حضرت بابا میاں لال دین رحمتہ اللہ علیہ نے انہیں دست شفقت بھی کیا اور دعا بھی فرمائی۔ آج سوڑہ پانی کی درگاہ پر گدی نشیں حضرت بابا میاں لال دین رحمتہ اللہ علیہ کے پوتے اور حضرت میاں احمد دین رحمتہ اللہ علیہ کے بیٹے جناب باجی عبدالقیوم صاحب مدضلہ علیہ موجود ہیں۔ یہ بھی لوگوں کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ہر سال یہاں پر بہت بڑے عرس کا انعقاد ہوا کرتا ہے۔ جس میں ہزاروں لوگ شرکت فرماتے ہیں۔ اللہ ان کا سایہ ہمیشہ یمن پر قائم رکھے۔
حضرت بابا لال دین رحمتہ اللہ علیہ کا وصال آج سے 42 سال قبل 20جون 1978کو ہوا تھا ۔ ان کی نماز جنازہ اس وقت حضرت مولانا محمد رفیق رحمتہ اللہ علیہ امام حطیب انارکلی والوں نے ادا کروائی۔ اور یہ اس وقت ہزاروں لوگوں کو روتے چھوڑ کر اپنے مالک حقیقی سے جاملے انا للہ وانا الیہ راجعون۔
تحریر لیاقت علی چودھری میں ان تمام احباب کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے مجھ ناچیز کو اللہ کےولی کے متعلق جانکاری مہیا کروانے میں وقت نکالا۔ 9419170548