GNS ONLINE NEWS PORTAL

حضرت بابا عبداللہ عرف بابا جی صاحب لاروی رحمتہ اللہ تعالی علیہ کا پیر پنچال سے لگاو۔

Facebook
Twitter
WhatsApp
Email


اولیاء عظام جموں کشمیر کی تاریخ کا سلسلہ ایک طویل ہے اس سرزمیں کو سوالاکھ اولیاء اعظام کا مسکن کہا جاتا ہے۔ یہاں بڑے بڑے اصحاب دستگاہ، پیر ومرشد اور مہربان بارگاہِ الہی پیدا ہوے۔ جن کی شان عبدیت نہایت ہی بلند ہے۔ روشن ضمیری، کشف قبور،کشف قلوب و فراست ایمانیہ کے کمالات کا خطِ وافر بارگاہ کبریا سے ان کو ملا ہے۔ یہ اولیاء عظام پوری زندگی تبلیغ دین و اشاعتِ اسلام میں مصروف رہتے اور بٹکے اور گمراہ و دین سے دور انسانوں کو راہ مستقیم پر لانے کی فکر میں قریہ قریہ چلا کرتے تھے۔ کشمیر میں بدمزہب، کفر و شرک کی زنجیر کو توڑنا ان ہی اولیاء کرام کی دین ہے۔ زیادہ تر بیرون ملک یا ریاست سے بزرگان دین خدا رسیدہ بزرگوں نے کشمیر میں تشریف لا کر اشاعت اسلام کا پرچم بلند کیا۔ ریاست کی خوشحالی ان ہی اولیاء کی دین ہے۔ آج میں کشمیر کے ان میں سے ہی ایک اللہ کے ولی کا تزکرہ کرنے کے کوشش کرنے جا رہا ہوں۔ آپ کا پورا نام حضرت عبیدللہ عبدللہ رحمتہ اللہ علیہ ہے اور اپنے پیر و مرشد کے ساتھ عقیدت کی بنا پر آپ زمانہ میں ” جی صاحب ” سے مشہور و معروف ہوے ہیں۔ آپ کا پورا نام حضرت عبیداللہ المعروف بابا جی لاروی رحمتہ اللہ علیہ ہے۔ آپ کا مزار وادی کشمیر کے وانگت لار شریف برفیلی چوٹیوں کی بلندی پر درخشندہ و تابندہ ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں عقیدت مند یہاں ہر سال تشریف لاتے ہیں اور فیضیاب ہوتے ہیں۔ آپ کی اولاد پاک سے حضرت بابا الحاج میاں نظام الدیں لاروی رحمتہ اللہ علیہ ہیں یہ بھی اللہ کے کامل ولی ہیں۔ اور اس وقت بھی ریاست میں ولی کامل حضرت بابا الحاج میاں بشیر احمد لاروی مدضلی علیہ موجودہ گدی نشین لار شریف موجود ہیں۔ اور دین کی اشاعت اور ہمارے رہنمائی فرما رہے ہیں۔
حضرت بابا جی صاحب لاروی رحمتہ اللہ علیہ کا پیر پنچال سے ایک گہرہ تعلق رہا ہے ۔ یہ اپنے پیرومرشد ولی مشکل کُشا حضرت نظام الدین رحمتہ اللہ علیہ کیّاں شریف سے اسی راستے کشمیر کی اس برف سے ڈھکی ہوئی اور اونچی پہاڑی پر تشریف لاتے تھے۔ اس کے بعد یہ حضرت بابا غلام شاہ بادشاہ رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر بھی ظاہری طور حاضری دینے پہنچے ہیں۔ اسی سفر کے دوران ایک بات کا زکر ہے کہ آپ حضرت بابا غلام شاہ بادشاہ رحمتہ اللہ علیہ کے دربار پر تشریف فرما ہوے ہیں۔ کہ یہاں چند لوگ آپ کا امتخان لینے کے لیے بھی حاضر ہوے۔ انہوں نے مرگی کی مرض میں مبتلا ایک شخص کو لایا اور اس کے علاوہ یہ بہرہ و گونگا بھی تھا۔ نہ یہ بول سکتا تھا اور نہ ہی سن سکتا تھا۔ البتہ جس طرح زمانے میں بہت سے لوگ اولیاء عظام کا امتخان لینے کے لیے سامنے آتے رہے ہیں۔ اور اولیاء بھی اللہ کے فضل سے اپنی کرامات دکھانے کے لیے شیر خور بچوں کی زبانی گواہی بھی دلوا دیتے تھے اور بہت بڑی بڑی کرامات اولیاء کی تاریخ میں درج ہیں۔ اسی طرح سے یہ بھی گمراہ اللہ کے ولی کو آزمانے کے لیے اس شخص کی بیماری کو اُلٹ بتاتے ہوے آپ کے سامنے فریاد کرنے لگے۔ کہ اس شخص کو رات کو مرگی کے دورے آتے ہیں اس پر نظرثانی کی جاے۔ آپ نے معمول کے مطابق کہا اللہ شفا دے گا اب دورے نہیں آئیں گے اسے گھر لے جاو۔ لیکن تھوڑے دور جانے کے بعد دوبارہ اسے دورہ پڑا اور یہ پھڑ پھڑانے لگا۔ البتہ اس کے ہمراہ جو لوگ تھے انہوں یہ اللہ کے ولی کی طرف متوجہ ہونے لگے کہ دیکھو جی پہلے رات کو دورے آتے تھے آپ کے پاس علاج کروانے سے تو دن کو بھی دورے آنے لگے ہیں۔ حالانکہ انہیں معلوم تھا کہ اسے ہر وقت دورے آتے رہتے ہیں۔ کسی بھی وقت یہ اس بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ البتہ حضرت بابا جی صاحب لاروی رحمتہ اللہ علیہ کو سب معلوم تھا کہ اس کے دورے بھی ٹھیک ہوں جائیں گے اور اللہ کی کرم نوازی سے اس کی زبان بولنے اور کانوں سے سننےکی انمول دولت بھی عطا ہو جاے گی۔ یہ لوگ سوالیہ انداز میں کہنے لگے جناب یہ کیا پہلے تو صرف مرگی تھی اب تو گونگا اور بہرہ بھی ہو گیا ہے۔ آپ اس کو دیکھ رہے تھے اور لوگوں کی طرح طرح کی باتیں بھی سن رہے تھے لوگ فقیری پر سوال کر رہے تھے۔ آپ جلالت میں آ گئے آپ فرمانے لگے “دور ہو جاو اس کے پاس سے ” جوں ہی ایک نظر اس کی طرف دیکھا تو یہ پسینہ پسینہ ہو گیا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ نوجوان اُوٹھ کھڑا ہوا۔ اور کہنے لگا اسلام علیکم بابا جی صاحب” اور تمام اکھٹے لوگوں کو بھی کہنے لگا اے اہل مجلس اسلام علیکم یہ ہاتھ جوڑے کھڑا تھا تو حضرت بابا جی صاحب فرمانے لگے بندے کے سامنے ہاتھ نہیں جوڑنے چاہیے۔ یہ طریقہ اللہ تعالی کے لیے ہی ہے۔ اس واقعے کےبعد یہاں تمام بد عقیدہ حیران پشیمان ہو گے۔ کچھ ندامت کے مارے تائب ہوے اور آپ کےدست شفقت پر بیعت بھی ہوے۔ اور اس علاقہ میں یہ معمول تو چلتا رہتا ہے ابھی بھی کچھ عقیدت مندوں کو جو حضرت بابا غلام شاہ بادشاہ رحمتہ اللہ علیہ کے دربار پر مرغا یا کوئی دوسری نظر ونیاز ادا کرنے جاتے ہیں تو انہیں تنزیہ کہتے ہیں بابا کو مرغا کھلانے لے جا رہے ہو۔ البتہ انہیں نہیں معلوم تھا کہ ان انڈے اور مرغیوں سے حضرت بابا غلام شاہ بادشاہ رحمتہ اللہ علیہ نے اللہ کی مدد سے ایک ٹیکنیکل یونیورسٹی کا قیام عمل میں لانا ہے۔
البتہ اسی طرح سے بہت سے واقعات ہیں جن میں حضرت بابا جی صاحب لاروی رحمتہ اللہ علیہ کا اس علاقہ سے وابستگی رہی ہے۔ پونچھ پر بابا غلام شاہ بادشاہ رحمتہ اللہ علیہ کی سخت نارضگی کو دور کرنے کے لیے بھی پونچھ کے لوگوں کے اصرار پر حضرت بابا جی صاحب لاروی رحمتہ اللہ علیہ نے شاہدرہ میں خاضری دی اور اللہ کے اس ولی کامل کو پونچھ کی عوام کو کرنے کے لیے گزارش اور انہیں راضی کرلیا۔ اللہ ان اولیاء اللہ کے صدقہ ہمارے گناہوں کو بخش دے۔ اللہ اپنے پیارے بندوں کے صدقے ہماری دعاوں کو مستجاب فرماے۔ تحریر لیاقت علی چودھری۔ 9419170548

Poll

[democracy id="1"]

Share Market

Also Read This

Gold & Silver Price

today weather

Our Visitor

1 1 6 8 1 3
Users Today : 55
Users Yesterday : 274