GNS ONLINE NEWS PORTAL

حضرت امیر معاویہؓ کی زندگی کا ایمان افروز واقعہ ______!!

Facebook
Twitter
WhatsApp
Email

حضرت امیر معاویہؓ حضورؐ کی خدمت میں بیٹھے ہیں، ایک شہزادہ آکر کہتا ہے یا رسول اللّٰہؐ! میں عیسائیوں کا شہزادہ ہوں، غستان کی ریاست سے آیا ہوں۔ میرا باپ بادشاہ ہے، میں نے تورات اور انجیل میں اپنے راہیوں اور پادریوں سے سنا ہے کہ آپ آخرالزمان نبی ہے، میں اسی علاقے میں آیا تھا تو میں زیارت کیلیے آگیا۔ وہ چلنے لگا تو کہنے لگا یا رسول اللّٰہؐ! میں اگر تحفہ اور ہدیہ آپؐ کو دوں تو آپؐ قبول کرینگے.حضورؐ نے فرمایا ضرور میں تیرا تحفہ قبول کرونگا۔ اب وہ رخصت ہوتا ہے تو کہتا ہے میرا سامان چھ میل کی فاصلے پر ایک جگہ پڑا ہے۔ آپؐ کسی خادم کو میرے ساتھ بیجھ دیں جو ہدیہ لے آئےحضورؐ کے خصوصی خدام میں حضرت انسؓ کا نام مشہور ہے یا حضرت زیدؓ کا نام مشہور ہے، لیکن اس وقت ان دونوں میں کوئ نہیں تھا۔ حضرت معاویہؓ حضورؐ کی خدمت میں بیٹھے تھے اور ان کی عمر 24 سال تھی۔حضورؐ نے فرمایا معاویہ! جاؤ اس عیسائ شہزادے کے ساتھ جاؤ ، جو چیز تمہیں دے لے آؤ ۔ حضرت معاویہؓ اس شہزادے کیساتھ چل پڑے، یہ واقعہ تطہیرالجنان میں بڑی تفصیل کیساتھ لکھاہے۔
حضرت معاویہؓ جب چلے حضورؐ کا حکم تھا تو وہ چل پڑے ، جوتا ان کا دوسری طرف پڑا تھا مسجد میں جوتا نہیں پہنا کہ حضورؐ کا حکم ہے چلو اور یہ شہزادہ جارہا ہے ، میں اس کے ساتھ چلوں اب شہزادہ مسجد سے باہر نکلا، حضرت معاویہؓ بھی نکلے عرب کی گرمی، دھوپ ہے، ریت ہے، صحرا ہے، جب باہر مدینہ سے نکلے، حضرت معاویہؓ کے پاؤں جلنے لگے تو حضرت معاویہؓ کے پاؤں جلنے لگے تو حضرت معاویہؓ نے اس شہزادے سے کہا کہ اپنا جوتا مجھے دےدو یا اپنی سواری پر سوار کرلو۔ تو اس شہزادے نے کہا کہ تو کمی ہے، تو نوکر ہے، تو غلام ہے، میں شہزادہ ہوں، میں کمیوں کو اپنا جوتا کیسے دےدوں تو کمی اور نوکر ہے
دوستو! حضرت معاویہؓ تو مکہ کے سردار ابوسفیانؓ کے لڑکے تھے، لیکن آج تو حکم پیغمبرؐ کا تھا، حضرت معاویہؓ خاموش ہوگئے اور چھ میل تک اس گھوڑ سوار شہزادے کیساتھ عرب کی دھوپ اور ریت میں امیر معاویہؓ بھاگتے رہے۔ چھ میل بعد اس کا پڑاو آیا۔ اس نے حضرت معاویہؓ کو سامان دیا، حضرت معاویہؓ سامان لے کر واپس آئے۔
حضورؐ نے پوچھا معاویہؓ تم کیسے گئے اور کیسے آئے۔
حضرت معاویہؓ نے سارا واقعہ بیان کیا۔ حضورؐ بڑے خوش ہوے کہ بغیر جوتے کے دھوپ میں گیا، تجھے اس نے کمی کہا تو تم واپس کیوں نہیں آئے۔ حضرت معاویہؐ نے فرمایا یا رسول اللّٰہؐ حکم آپؐ کا تھا، میرے تو پاؤں جلتے ہیں میرا جسم بھی جل جاتا تو معاویہ واپس نہیں آتا ، حضورؐ نے اس کے جواب میں فرمایا تھا کہ…..احلم_من_امتی_معاویہ….. میرے امت کا سب سے بڑے حوصلے والا معاویہ بن ابی سفیان ہے۔
اگر بات صرف اتنی ہوتی تو میں شاید اس کا ذکر نہ کرتا۔ لیکن اس واقعے کے وقت حضرت معاویہؓ کی عمر 24 سال تھی پورے 34سال گزرجانے کے بعد جب حضرت معاویہؓ دمشق کے تخت پر خلیفہ بنےاور ساری دنیا کے نصف حصّےسے زیادہ پر حضرت معاویہؓ کو حکومت ملی اور تن تنہا دنیا میں اتنا بڑا اسلامی حکمران بنا۔ حضرت معاویہؓ کی فوجیں ملک غسان کو فتح کرنے گیئں، تین مہینے بعد فوج واپس آئ تو مبارک باد پیش کی گئی کہ امیرالمونین! غسان فتح ہوگیااور ہم چھ ہزار قیدی قید کرکے لائے ہیں (سپہ سالار نے کہا)۔ حضرت معاویہؓ کے دربار میں جب وہ چھ ہزار قیدی پیش کیے گئے۔ ان کے ہاتھ اور پاؤں رسیوں سے بندھے ہوئے تھے، حضرت معاویہؓ نے ان قیدیوں کو دیکھا تو سب سے آگے جو قیدی تھا وہی غسان کی ریاست کا شہزادہ تھا۔ جس شہزادہ نے معاویہؓ کو پہننے کیلئے جوتا نہیں دیا تھا اور حضرت معاویہؓ نے دیکھا کہ یہ وہی شہزادہ ہے پہچان لیا۔ حضرت معاویہؓ نے فرمایا! شہزادے کو میرے مہمان خانے میں لے جاؤ ۔ ایک مہینہ تک حضرت معاویہؓ اپنے مہمان خانے میں اس کی میزبانی کرتے رہے۔ اس نے نہیں پہچانا کہ یہ امیرالمومنین ہے ۔ یہ حضرت معاویہؓ وہی پیغمبرؐ کا غلام ہے جس کو میں نے کمی کہا تھا، اس نے نہیں پہچانا، جب ایک مہینہ بعد وہ جانے لگا تو معاویہؓ نے فرمایا کہ میں نے تیری وجہ سے سارے قیدیوں کو رہا کردیا اور تجھے بھی رہا کیا اب وہ رخصت ہوتا ہے دس ہزار درہم معاویہؓ نے اسے ہدیہ کے طور پر دیے تو وہ لوگوں سے پوچھتا ہے یہ کون ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ امیر معاویہؓ بن ابوسفیان ہے۔ سفیان کا لڑکا ہے، رسول اللّٰہؐ کا غلام ہے ، اب اس کے ذہن میں آیا کہ یہ تو وہی نوجوان ہے جس کو میں نے پہننے کیلیے جوتا نہیں دیا تھا اور میں نے اس کو کہا تھا کہ تو “کمی” ہے ، اب اس کی آنکھیں شرم سے جھک گئیں ، حضرت معاویہؓ کے پاس آکر کہنے لگا امیرالمونین! آپ وہی معاویہؓ ہے جو میرے ساتھ پیدل گئے تھے حضرت معاویہؓ نے فرمایا اے شہزادے! ہاں میں محمدؐ کا وہی کمی ہوں، میں محمدؐ کا وہی نوکر ہوں، اس نے کہا میں شرمندہ ہوں، حضرت معاویہؓ نے فرمایا میں نے تجھے پہلی مرتبہ ہی پہچان لیا تھا اور سب کچھ میں نے پہچاننے کے بعد کیا۔ تیرا اخلاق یہ تھا کہ تو نے مجھے جوتا نہ دیا، شاید تیرے مذہب نے تجھے یہ اخلاق سکھایا ہو اور میرا اخلاق یہ تھاکہ تو نے میرے ساتھ جو سلوک کیا میں نے وہ تجھے بتلایا بھی نہیں ، میں نے وہ تجھ سے پوچھا بھی نہیں، میں نے پہچان کر تیری رسیاں کھلوایئں ، میں نے پہچان کر تیرے ہاتھ کھلوائے اور پہچان کر تجھے مہمان بنایا، پہچان کر تجھے دس ہزار درہم دیئے، وہ زاروقطار رونے لگا اور کہنے لگا امیرالمونین! میں نے بڑے بڑے بادشاہوں کے دربار دیکھے تیرے سے زیادہ کوئی حوصلے والا نہیں دیکھا مجھے جلدی کلمہ پڑھا کر مسلمان کر دیجئے.
اسی بات کوحضورؐ نے فرمایا تھا…..احلم_من_امتی_معاویہ….
میری امت کا سب سے بڑا حوصلے والا معاویہ بن ابی سفیان ہے.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Poll

[democracy id="1"]

Share Market

Also Read This

Gold & Silver Price

today weather

Our Visitor

1 7 0 8 3 5
Users Today : 148
Users Yesterday : 222