GNS ONLINE NEWS PORTAL

بھارت کے سویلین اعزازات اور کشمیرمظفر بیگ ، ممہ کن، حشمت اللہ، کشمیر اور پدم بھوشن

Facebook
Twitter
WhatsApp
Email

افتخار گیلانی

بھارت میں ہر سال 26جنوری یعنی یوم جمہوریہ کے موقعہ پر سویلین، پولیس اور دفاعی اعزازات کا اعلان کیا جاتا ہے۔ تحلیل شدہ ریاست جموں و کشمیر سے اس سا ل سویلین یعنی پدما ایوارڈ سابق ممبر پارلیمان اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈر مظفر حسین بیگ کو دیا گیا۔ آخر ان کو یہ ایوارڈ کیوں دیا گیا ؟ اس پر چہ مگوئیوں کا بازار گرم ہو گیا ہے۔ جب شیخ عبداللہ جیسے لیڈر ، جس نے کشمیر کو بھارت کی گود میں ڈالنے میں ایک کلیدی کردار کے بطور کا م کیا، کو کبھی ایوارڈ کا حقدار نہیں سمجھا گیا،تو آخر بیگ میں ایسے کون سے سرخاب کے پر لگ گئے ، کہ ان کی ایسی عزت افزائی کی گئی۔ لگتا ہے کہ کسی متوقعہ ذمہ داری کے پیش نظر شیشے میں اتارنے کیلئے ان کو بطور پیشگی ایوارڈ دے دیا گیا۔ ورنہ انکی سیاسی اور سماجی زندگی میں دور دور تک کوئی ایسی کارکردگی نظر نہیں آتی ہے ، جس کی بنا پر وہ کسی ایسے ایوارڈ کے مستحق ہوسکتے تھے۔ویسے تو کشمیر سے اکثر ایسے ہی افراد کو ان ایوارڈز کیلئے منتخب کیا جاتا ہے جن سے عوام کے زخموں پر نمک اور مرچ چھڑکنے کا کام کیا جائے اور ان میں احساس غلامی اور بے بسی کو مزید پختہ کیا جائے۔

بھارت میں سویلین ایوارڈ چار زمروںمیں تقسیم کئے گئے ہیں ۔ اعلیٰ ترین ایوارڈ بھارت رتن اس سال کسی کو نہیں دیا گیا۔ اس کے بعد بالترتیب پدما وبھوشن ، پدما بھوشن اور پدما شری ایوارڈ آتے ہیں۔

بیگ کو پدما بھوشن کا ایوارڈ دیا گیا۔ ایک نامور وکیل کے بطور جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے محبوس قائد محمد مقبول بٹ کی عدالت میں پیروی کرنے، شیخ عبداللہ ، نیشنل کانفرنس اور نئی دہلی کی کانگریس حکومتوںکو للکارنے کیلئے 80ء کی دہائی میں بیگ شمالی کشمیر میں ایک مقبول لیڈر کے بطور ابھر ے تھے۔ وہ عبدالغنی لون کی پیپلز کانفرنس یا آزاد امیدار کے طور پر اکثر بارہمولہ اور کپواڑہ حلقہ سے بھار تی پارلیمان کے انتخابات کیلئے قسمت آزمائی کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ سوپور اور اسکے اطراف میں جماعت اسلامی اور نیشنل کانفرنس کے اکثر ذی شعور ارکان اپنے امیدوار کے بجائے ان کو ووٹ دیتے تھے۔ اس وجہ سے کپواڑہ اور ہندواڑہ ، جو عبدا لغنی لون کے زیر اثر علاقہ تھے، کے بجائے سوپور اور بارہمولہ کے بیلٹ بکسوں سے ہی ان کے حق میں اکثر ووٹ برآمد ہوتے تھے۔ سوپور کی اقبال پارک میں جوشیلی تقریریں کرکے وہ 1947 ء میں الحاق ا ور پھر 1975ء کے ایکارڈ کیلئے شیخ عبداللہ کو کٹہر ے میں کھڑا کرکے واہ واہی لوٹ لیتے تھے۔ 1983ء میں ہوئے اسمبلی انتخابات کے دوران جب وہ سوپور آئے تو آسام میں نیلی کے مقام پر بنگالی مسلمانوں کے قتل عام کی تصویریں دکھا کر انہوں نے ایسا سماں باندھا کہ جلسہ گاہ میں لوگ زار و قطار رونے لگے۔ 1989ء میں تحریک آزادی شروع ہونے سے قبل ہی وہ عبدالغنی لون سے علیحدہ ہوچکے تھے اور 1998ء میں انہوں نے مفتی محمد سعید کے ساتھ ملکر نیشنل کانفرنس کو چیلنج دینے کیلئے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی یعنی پی ڈی پی کی بنیاد ڈالی۔ مگر 2003ء میں اس پارٹی کی انتخابی کامیابی پوری طرح مفتی محمد سعید کی صاحبزادی محبوبہ مفتی کی دین تھی، جو شہداء کے گھروں میں جاجاکر اور آنسو بہاکر حریت کانفرنس کے ایجنڈہ کو ہائی جیک کرنے میںکامیاب ہو گئی تھی۔

اپنی 80ء کی دہائی کی شبیہ کے برعکس بیگ اس دوران بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے نہ صرف قریب ہوگئے بلکہ پی ڈی پی کے اندر بھی ان کے آلہ کار کے بطور کام کیا۔ ریاست جموں و کشمیر کو تحلیل کرنے اور اسکی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرنے پر جب روایتی بھارت نواز لیڈران بھی اضطراب میں تھے، بیگ کی خاموشی خاصی پر اسرار تھی۔ 1953ء میں شیخ عبداللہ کی معزولی اور گرفتاری کے بعد جس طرح بھارتی حکومت کو بخشی غلام محمد کے روپ میں جلد ہی ایک مفاد پرست ٹولہ کی حمایت حاصل ہوئی، اسکے برعکس 5اگست 2019ء کو ریاست کوضم کرنے کے بعد ابھی تک وہ کشمیر کے اندر کسی دوسرے بخشی کو پیدا کرنہیں پا رہی ہے۔ اب بیگ ،الطاف بخاری اور غلام حسن میر کی شکل میں ایک مفاد پرست ٹولہ کی حوصلہ افزائی کرکے نئی دہلی ان کو نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے متبادل کے بطور لاکر 1953ء کی تاریخ دہرانے کی کوشش کر رہی ہے، جس کیلئے شاید بیگ کو پیشگی کے طور پر پدما ایواڈ سے سرفراز کیا گیا۔

2014ء میں جب بیگ پہلی بار شمالی کشمیر سے بھارتی پارلیمان کیلئے منتخب ہوگئے، توان سے خاصی امیدیں بندھ گئی تھیں۔ چونکہ میں سوپور میں بچپن سے کئی ذی شعور افراد کی یہ آہیں سن کر بڑا ہو گیا تھا ، کہ’ کاش بیگ جیسا زیرک وکیل بھارتی ایوان میں پہنچ جاتا تو کشمیر کی نمائیندگی کا حق ادا ہوتا،‘ اسلئے میری بھی ان سے خاصی امیدیں تھیں۔ جب بھی وہ ایوان میں ہوتے، میں فوراً پریس گیلری کارخ کرکے ٹکٹکی باندھے ان کو دیکھتا رہتا کہ اب یا تب وہ ضرور کسی ایشو پر بات کریں گے یا کشمیر یا دیگر امور پر تاریخ اور دیگر واقعات مسخ کرنے پر کسی مقرر کو ٹوک دیں گے۔میں نے اپنے کئی ساتھیوں کو بتایا تھا کہ اب دوسرا اسد الدین اویسی ، ششی تھرور ، برتو ہری مہتاب اور این کے پریم چندرن لوک سبھا میں پہنچ چکا ہے اور ایوان کی کارروائی میں اب جان آجائیگی۔ مگر یہ امیدیں جلد کافور ہوگئیں۔ ان کی کارکردگی ایسی رہی کہ پریس گیلری میں خود میں ہی منہ چھپانے کے قابل نہیں رہا۔

بھارتی پارلیمان کے ریکارڈ کے مطابق پور ے پانچ سال ان کی حاضری کا اوسط محض 11فیصد رہا اور انہوں نے صرف تین مباحثوں میں حصہ لیا۔ گو کہ ایک ممبر پارلیمان پانچ برسوں کے وقفہ کے دوران اوسطً 293سوالات پوچھتا ہے، بیگ صاحب نے صرف 19 تحریری سوالات پوچھے ۔ انہوں نے اس دوران کوئی پرائیوٹ ممبر بل پیش کیا نہ کسی ایشو پر خصوصی بحث کی مانگ کی۔ دو ایسے سیشن تھے، جب وہ پوری طرح غیر حاضر رہے۔ اب اگر اس کارکردگی پر ان کو اعلیٰ سویلین ایوارڈ دیا جاتا ہے تو یہ اس اعزازکی افادیت پر ہی سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔

نئی دہلی میں اپنے صحافتی کیریر کے دوران ہر سال 25جنوری کی شب ان ایوارڈز کے اعلان تک آفس میں رکنا پڑتا تھا۔ چونکہ اگلے روز پریڈ کی وجہ سے نئی دہلی کا اکثر علاقہ دوپہر سے ہی بند کردیا جاتا تھا، سبھی رپورٹرز خبریں جلد فائل کرکے گھر جانے کے فراق میں ہوتے تھے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے دور میں اعزازات کا اب جلد ہی اعلان کیا جاتا ہے اور یہ خاصی حد تک اسٹریم لائن ہو چکے ہیں۔ اس سے قبل کبھی کبھی آدھی رات گئے وزارت داخلہ سے ایواڑیافتگان کی فہرست موصول ہوتی تھی۔ ریجنل اخباروں اور میڈیا کا ایک اور کام ان کے اپنے علاقوں کے ایوارڈ یافتگان کو ڈھونڈ نکالنا اور ان کے پروفائل بنانا بھی ہوتا تھا۔ میں چونکہ ایک دہائی تک سرینگر اور جموں سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار کشمیر ٹائمز کے دہلی بیورو سے وابستہ رہا ، میں اس ایوارڈ لسٹ میں جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے افراد کے نام اور ان کے پروفائل بنا کر بھیجتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ 25جنوری 2009ء کی رات جب لسٹ موصول ہوئی، تو اس میں جموں و کشمیر سے آرٹ ، کلچر اور زبان کی کٹگری میں کسی حشمت اللہ کو پدم شری کا ایوارڈ دیا گیا تھا۔چونکہ اکثر ایوارڈ یافتگان جانے پہچانے چہرے ہوتے ہیں، اسلئے ان کو ڈھونڈ نکالنا یا ان کا مختصر پروفائل لکھنا کچھ زیادہ مسئلہ نہیں ہوتا ہے۔ مگر اس حشمت اللہ کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔ وزارت داخلہ کے افسران دفتر بند کرکے جاچکے تھے۔

کشمیر سے بھی آرٹ، کلچر اور زبان کے شعبہ میں کسی ایسے شخص کی موجودگی سے لوگ نابلد تھے۔ میں نے قیاس لگایا کہ ہو نہ ہو یہ ایوارڈ تاریخ جموں کے مصنف مولوی حشمت اللہ لکھنوٗی کو دیا گیا ہوگا ۔ میں نے ایک مختصر پروفائل لکھ کر خبر بھیج دی۔ اگلے روز صبح سویرے کشمیر ٹائمز کے ایڈیٹر وید بھیسن کا فون آیا اور وہ سخت غصہ میں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ تاریخ جموں کے مصنف حشمت اللہ تو 1928ء میں ڈوگرہ حکومت کی ملازمت سے ریٹائرڈ ہوگئے تھے اور یہ کتاب بھی انہوں نے 1936ء میں شائع کی تھی۔ ان کے عزیزواقارب بھی غالباً پاکستان ہجرت کر چکے ہیں۔ خیر ڈانٹ کھانے نے بعد میں نے وزارت داخلہ میں اس شعبہ کے افسران سے رابط کیا۔ وہ بھی حشمت اللہ کے بارے میں بتانے سے قاصر تھے ۔ ان کا بس یہی کہنا تھا کہ ان کے پاس ان کے نام کی سفارش آئی تھی۔ اسی دوران وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ اور جموں کشمیر کلچر اکیڈیمی نے کہا کہ انہوں نے کسی حشمت اللہ کا نام قومی ایوارڈ کیلئے نئی دہلی نہیں بھیجا ہے ۔ اگلے دو دن تک اس ایواڈ یافتہ حشمت اللہ کی شخصیت خاصی پر اسرار رہی ۔ کسی کو معلوم نہیں ہو پا رہا تھا کہ آخر یہ شخصیت ہے کون؟

وزارت داخلہ اور رپورٹروں نے جب چھان بین کی تو معلوم ہوا کہ پرانی دہلی کے چاندنی چوک علاقے میں حشمت اللہ نامی شخص کشمیری دست کاری مصنوعات کے تاجر ہیں۔ انہوں نے ایک مقامی ممبر اسمبلی اور دہلی حکومت میں بعد میں وزیر ہارون یوسف کو کشمیری شالوں کاتحفہ دیکر درخواست کی تھی کہ ان کو وزارت ٹیکسٹائل سے کوئی ایوارڈ دلوادیں اور بیرون ملک دستکاری کی نمائش میں ان کو بھی وفد میں شامل کروائیں۔ستم ظریفی تو یہ ہوئی کہ یوسف کاسفارشی لیٹر وزارت ٹیکسٹائل کے بجائے وزارت داخلہ پہنچا ، جہاں پدما ایوارڈ کی فہرست بن رہی تھی اور افسران نے ان کو فہرست میں شامل کردیا۔ چونکہ ایوارڈ واپس اب نہیں لیا جاسکتا تھا ، اس لئے پوری ڈھٹائی کے ساتھ ان کے سپاسنامہ میں لکھا گیا کہ حشمت اللہ کی کاوشوں سے کشمیر شالوں کی ایک نایاب قسم کانی شال ، جو ناپید ہوچکی تھی کو زندگی ملی ہے اور اس آرٹ کو زندہ رکھنے کیلئے ان کی عزت افزائی کی جاتی ہے۔

اسی طرح اگلے سال یعنی 2010ء میں یہ ایوارڈ بھارتی سکیورٹی ایجنسیوں کی ایما پر قائم کی گئی ملیشیا اخوان المسلمون کے کمانڈر غلام محمد میر المعروف ممہ کنہ کو دیا گیا۔ اس بار سفارش سول سوسائٹی کے ایک رکن اور سابق بیورکریٹ وجاہت حبیب اللہ کی طرف سے آئی تھی۔ وجاہت کا کہنا تھا کہ جب وہ 90ء کی دہائی میں کشمیر میں ڈیوژنل کمشنر تھے، تو بس ممہ کنہ ان کے دربار میں حاضر ہو کر مقامی مسائل سے انکو آگاہ کرتے تھے۔ ان اخوانیوں یاسرکاری بندوق برداروں کے مظالم کی داستان خاصی طویل ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جو کام بھارتی فوج یا دیگر سکیورٹی ایجنسیاں نہیں کرپائیں ، انہوں نے خوف و دہشت کی فضا قائم کرکے بھارت کے لیے وہ ہدف حاصل کرلیا۔ وہ یقینا کسی بھارتی فوجی ایوارڈ کا مستحق تھا۔ مگر سویلین ایوارڈ کسی ایسے شخص کو دینا ایوارڈ اور انسانیت کے ساتھ صریح زیادتی تھی۔

ممہ کنہ کے ساتھ میری ایک یاد گار ملاقات غالبا 1996ء یا 1997ء میں ہوئی تھی۔ میں سوپور قصبہ سے سرینگر کی طرف بس میں رواں تھا۔ پروگرام تھا کہ سرینگر میں ایک رات قیام کے بعد اگلی صبح جموں اور پھر دہلی آکر ڈیوٹی جوائن کروں گا۔ تقریباً 30 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد سویلین کپڑوں میں ملبوس کچھ بندوق بردار ایک جگہ بسوں کو قطار میں کھڑا کر کے سواریوںکو نیچے اترنے کا حکم دے رہے تھے۔ معلوم ہو ا کہ یہ ممہ کنہ کا اسکواڈ تھا، جو خود بھی موقع پر موجود تھے۔ایسا لگ رہا تھا، کہ کوئی سرچ آپریشن ہے‘ مگر جب برلب سڑک ہمیں قطار میں آگے بڑھنے کا حکم دیا گیا ، توایک بندوق بردار جامہ تلاشی کے نام پر سواریوں کے بٹوے اور پرس چھین کر پاس ہی دوسرے ساتھیوں کے حوالے کر رہا تھا۔ جب کسی نے ان پرسوں سے کچھ روپے واپس کرنے کی ذرا سی بھی درخواست کی، تو اس کو یہ بندوقچی بری طرح جھڑکتے تھے۔سڑک سے متصل سیب کے ایک باغ میں دور مجھے چند وردی پوش فوجی ٹہلتے ہوئے نظر آئے۔ ان جنگجوئوں سے نظریں بچاکر میں ان فوجیوں کر طرف بڑھا، نزدیک پہنچ کر معلوم ہوا، کہ ایک فوجی افسرسیب کے ایک پیڑ کے سائے میں کرسی پر براجمان چائے نوش فرما رہے تھے اور یہ سپاہی ان کی گارڈ پر متعین تھے۔مجھے افسر کی طرف بڑھتے دیکھ کر سپاہی الرٹ ہوگئے۔ میں نے ہینڈزاپ ہوکر افسر سے ملنے کی خواہش ظاہر کی اور بتایا کہ میں دہلی میں مقیم ایک صحافی ہوں اور سوپور اپنے والدین سے ملنے آیا تھا۔میرا شناختی کارڈ وغیرہ دیکھنے کے بعد افسر نے اشارہ کرکے اپنی طرف بلایا۔ میں نے درخواست کی، کہ میرے سب پیسے بٹوے میںہیں، اور اب دہلی تک پہنچنے کیلئے زادراہ بھی نہیں ہے۔ اس لیے کچھ پیسے مجھے لوٹا دیے جائیں۔افسر نے ایک سپاہی کو میرے ساتھ جاکر بٹوہ واپس کرنے کا حکم دیا۔ جب میں سپاہی کی معیت میں دوبارہ سڑک پر پہنچا، تو ممہ کنہ کی سربراہی میں سویلین بندوق برداروں کی خشم آلود نگاہیںمیرا طواف کر رہی تھیں۔ ان میں سے ایک نے لقمہ بھی دیا، ”دیکھتے ہیں‘ کیسے بچ کے جاتا ہے‘‘۔سپاہی کی معیت میں مجھے ایک شیڈ کے اندر لے جایا گیا۔ جہاں مائونٹ ایورسٹ جتنا بلند بٹووں اور پرسوں کا ایک پہاڑ کھڑا تھا۔یہ شاید ان کا دن بھر کا مالِ غنیمت تھا۔

اس پہاڑ میں مجھے اپنا پرس ڈھونڈنے کا حکم دیا گیا، جو ظاہر ہے ناممکن تھا۔اسی دوران سپاہی نے ہی ایک بٹوے پر ہاتھ مارکر اس میں سے کچھ روپے نکال کر میری جیب میں رکھ دیے اور مجھے نو دو گیارہ ہونے کیلئے کہا۔میں نے بس کی طرف دوڑ لگائی‘ مگر یہاں ایک اور کہانی میری منتظر تھی۔ میری جرأت کی تعریف کرنے کے بجائے سبھی سواریاں اور ڈرائیور مجھ پر برس پڑے ، کہ میں نے ان اخوانیوں کی شکایت فوجی افسر سے کیوں کی۔ اب بقول ان کے پوری بس کی سکیورٹی دائو پر لگ گئی ہے۔ آگے ان کے ساتھی، بے عزتی کا بدلہ لینے کیلئے منتظر ہوں گے۔ قصہ مختصر، سبھی سواریوں نے متفقہ فیصلہ صادر کیا کہ میں اب ان کی سلامتی کیلئے خطرہ ہوں، اس لیے مجھے اپنے ساز و سامان سمیت سری نگر کے نواح سے کافی دور بس سے اتار دیا گیا‘ جہاں ایک دو گھنٹے کے انتظار کے بعد ایک ٹرک والے نے رحم کھا کر مجھے سرینگر پہنچادیا۔

ستم ظریفی ہے کہ 2010 ء کے وسط میں بھارت کے ایوان صدر (راشٹرپتی بھون) کے اشوکا ہال کی ایک نشست سے میں اسی کمانڈر ممہ کنہ کو بھارت کے اعلیٰ سویلین اعزاز پدم بھوشن سے سرفراز ہوتے ہوئے دیکھ کر خون کے آنسو پی کر اس واقعہ کو یاد کر رہا تھا۔اپنی قوم کی بے بسی ، کسمپرسی اور اسکے قاتلوں کو ایوارڈ سے سرفراز ہوتے دیکھ کر میری آنکھوں سے آنسوئوں کی لڑی جاری تھی۔ ممہ کنہ کے ساتھ آنکھ ملانا میرے بس میں نہ تھا۔ تقریب ختم ہوتے ہی میں نے باہر گیٹ کی طرف دوڑ لگائی۔ حشمت اللہ اور ممہ کنہ کی صحبت و رفاقت بیگ صاحب کو مبارک ہواور کشمیریوں کے حال پر اب بس اللہ رحم فرمائے۔

Poll

[democracy id="1"]

Share Market

Also Read This

Gold & Silver Price

today weather

Our Visitor

1 1 6 8 0 2
Users Today : 44
Users Yesterday : 274