GNS ONLINE NEWS PORTAL

“بقاء کی جنگ”

Facebook
Twitter
WhatsApp
Email

میں نے آج اپنے اس مضمون کا عنوان “بقاء کی جنگ” اس لئے چنا کہ پچھلے کچھ عرصہ سے میں دیکھ رہا ہوں کہ کچھ لوگ برادری ،علاقہ اور زبان کو بنیاد بنا کر ایک ایسی جنگ میں مصروف ہیں جس میں ہر ایک کی کوشش رہتی ھے کہ وہ اپنے مخالف کو نیچا دکھانے میں کامیاب ہوسکے اور یہ ثابت کرسکے کہ محض اسکی زبان اور اسکی برادری ہی مقدم ھے باقی سب ہیچ ۔
ایسی صورت حال سے سوشل میڈیا بہت زیادہ متاثر نظر آتا ھے جس پر مختلف گروپس یا گروہ بنا کر اپنے اپنے موقف کی تشہیر کی جاتی ھے ۔ یہ وباء خطہء پیر پنجال میں زیادہ عروج پر ھے جہاں ۔مختلف زبانوں اور برادریوں کے بیچ ایک بہت بڑے پیمانے پر جنگ چھڑ چکی ھے اور ان تمام باتوں سے بے خبر اس جنگ میں مصروفِ عمل ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ مستقبل قریب میں اس ریاست میں نہ صرف انکی زبانوں کا چلن ہوگا بلکہ یہاں مراٹھی، بنگالی، ملیالم، بہاری اور نہ جانے کیا کیا زبانیں بولی،لکھی اور پڑھی جائیں گی۔۔۔
ابھی گزشتہ دنوں کسی مقامی اخبار میں یہ خبر چھپی کہ کسی ایک شخص نے عدالتِ عُظمی میں مفادِ عامہ کی ایک عرضی اس بناء پر دائر کردی کہ صوبہ جموں میں چونکہ ڈوگری اور ہندی زبان بولنے والوں کی اکثریت ھے لہذا اردو کے بجائے ہندی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے اور اسکولوں اور کالجوں کی سطح پر اسے زبانِ اول اور اردو کو ایک اختیاری زبان کی حیثیت سے رکھا اور پڑھایا جائے ۔۔۔
اردو جو کہ ہماری شناخت ھے اور ہمارا بیشتر مذہبی، تمدنی، تقافتی، تہزیبی ورثہ کو محفوظ کئے ہوئے ھے اسی کو ختم کرنے کی کوششیں جاری ہیں اور عدالت نے سرکار کے نام یہ حکمنامہ بھی جاری کردیا ھے کہ اس بات کو دھیان میں رکھتے ہوئے اپنی رائے سے عدالت کو آگاہ کرے ۔۔۔
اگر خدانخواستہ ایسا ہوجاتا ھے اور یہ بات مان لی جاتی ھے جیسا کہ عرضی گزار نے خواہش ظاہر کی ھے تو ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل کیا ہوگا کیا کسی نے اس بات پر دھیان دیا۔۔۔۔اپنی شناخت اور وراثت کا ایک حصہ ہم کچھ نا عاقبت اندیش سیاستدانوں کی وجہ سے گنوا بیٹھے ہیں اور وہ زبان جو ہماری تہذیبی اثاثہ ھے اسکو بھی گنوانے کے درپے ہیں بڑے افسوس کی بات ھے اور ہمارے قومی مفکرین کو اس بات کا ذرہ برابر بھی احساس نہیں ھے کہ آنےوالی نسلیں انہیں کس طور یاد کریں گی۔۔۔۔۔آنے والا وقت ہمیں کن مشکلات سے دوچار کرے گا اور کس طرح اپنی بقاء کی خاطر جنگ لڑنی پڑے گی کسی کو اس بات کا ابھی گمان بھی نہیں ھے اور ہم سب اپنی اپنی عالاقائی سوچ میں جکڑے ہوئے اپنی اپنی بولی اپنی اپنی برادری کو ایکدوسرے پر سبقت لے جانے کی فکر میں ہیں اور نئے طریقے سے سیاسی قلا بازیاں کھانے میں مصروف ہیں اور اس مداری کے بندر کی طرح جسے وہ اپنی ڈگڈگی پر نچاتا ھے ناچ رہے ہیں اور اپنے انجام سے بالکل بے خبر ہیں اور سوچتے ہیں کہ ہماری ہر بیماری کا علاج سیاست میں مضمر ھے جبکہ ایسا ہر گز نہیں ھے اگر ہوتا تو آج سات دہائیوں سے اوپر کاعرصہ گزر چکا اور ہم سیاست کی وجہ سے بجائے آگے جانے کے پیچھے ہی ہٹے ہیں اور ہمارا کتنا نقصان ہوچکا سوچ کر ہی لرزہ طاری ہوجاتا ھے۔۔۔۔۔
بقول علامہ اقبال۔۔۔۔۔۔
“حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی”۔۔۔۔
ابھی بھی وقت ھے کہ ہم سب اپنا محاسبہ کریں اور ایک مجموعی سوچ کو اجاگر کریں جو علاقہ ، ذات،برادری اور زبان سے بالاتر ہو اور جس میں ہم سب کی خیر ہو یہ تبھی ممکن ھے جب ہم سب تمام تر تفرکات اور گروہ بندیوں کو چھوڑ کر اکٹھے ہوکر اپنی بقاء کی جنگ لڑیں اور اس میں سرخرو ہوجائیں نہیں تو آنے والی نسلیں کسی بھی صورت ہمیں معاف نہیں کریں گی۔۔۔۔۔۔۔۔
میری خواہش ھے کہ صاحبِ رائے حضرات میرا یہ مضمون پڑھ کر اپنی قیمتی رائے سے ضرور نوازیں گے ۔ میرا مقصد ہرگز کسی کی دل شکنی کرنا نہیں بلکہ حالاتِ حاضرہ کی خبر دینا تھا سو میں نے وہ فریضہ انجام دیا۔۔۔۔۔
“پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی”
آپکی آراء کا منتظر اور خصوصی دعاؤں کا طالب ۔۔۔۔۔
“میر خورشید جانم “
۱۳/جولائی، ۲۰۲۰ء

Poll

[democracy id="1"]

Share Market

Also Read This

Gold & Silver Price

today weather

Our Visitor

1 1 0 3 8 6
Users Today : 259
Users Yesterday : 159