GNS ONLINE NEWS PORTAL

* اپنے رزق میں دوسروں کو شامل کریں. ا

Facebook
Twitter
WhatsApp
Email

اگر آپ اچھا رزق کما رہے ہیں تو یقین جانیں اس میں آپ کی ذہانت یا صلاحیتوں کا کوئی کمال نہیں، بڑے بڑے عقل کے پہاڑ خاک چھان رہے ہیں۔

اگر آپ کسی بڑی بیماری سے بچے ہوئے ہیں تو اس میں آپ کی خوراک یا حفظانِ صحت کی اختیار کردہ احتیاطی تدابیر کا کوئی دخل نہیں۔ ایسے بہت سے انسانوں سے قبرستان بھرے ہوئے ہیں جو سوائے منرل واٹر کے کوئی پانی نہیں پیتے تھے مگر پھر اچانک انہیں برین ٹیومر، بلڈ کینسر یا ہیپاٹائٹس سی تشخیص ہوئی اور وہ چند دنوں یا لمحوں میں دنیا سے کوچ کر گئے۔

اگر آپ کے بیوی بچے سرکش نہیں بلکہ آپ کے تابع دار و فرمانبردار ہیں، خاندان میں بیٹے بیٹیاں مہذب، باحیا و با کردار سمجھے جاتے ہیں، تو اس کا سب کریڈٹ بھی آپ کی تربیت کو نہیں جاتا کیوں کہ بیٹا تو نبی کا بھی بگڑ سکتا ہے اور بیوی تو پیغمبر کی بھی نافرمان ہو سکتی ہے۔

اگر آپ کی کبھی جیب نہیں کٹی، کبھی موبائل نہیں چھنا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ بہت چوکنّے اور ہوشیار ہیں، بلکہ اس سے یہ ثابت ہوا کہ اللہ نے بدقماشوں، جیب کتروں اور رہزنوں کو آپ کے قریب نہیں پھٹکنے دیا تاکہ آپ ان کی ضرر رسانیوں سے بچے رہیں۔

الحمدللّٰہ مجھے مذکورہ بالا تمام نعمتیں میسر ہیں سوائے اس کے کہ ایک بار حیدرآباد میں ایک تھکا ہوا نوکیا موبائل جیب سے نکل گیا وہ بھی اس لیے کہ میرے ایک عزیز کا موبائل نکل جانے پر میرے دل میں یہ خیال آیا کہ لوگ کیسے مست و مدھوش ہو کر چلتے ہیں کہ کوئی ان کی جیب سے موبائل لے اڑے، انہیں پتہ تک نہیں چلتا۔ بس اگلے ہی دن میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگیا۔ من میں جھانکا تو اندر سے صدا آئی: اے ڈیڑھ ہوشیار! جب تقدیر کا لکھا سامنے آ جائے تو عقل کی چڑیا پرواز کر جایا کرتی ہے۔

دبئی میں ایک صاحب سے واسطہ پڑا۔ پہلے مجبور و پریشان تھے، پھر کنسٹرکشن کی کمپنی کھول لی۔ پر شکوہ آفس بنایا، سمجھیں کہ لاکھوں میں کھیلنے لگے۔ ملاقات کے لیے گیا تو ایک مشترک دوست کے بارے میں پوچھا، جو بیچارے مفلوک الحال رہا کرتے تھے۔ پھر کہنے لگے، وہ تو بڑے کم عقل انسان ہیں، ساری زندگی یوں ہی عسرت میں گزار دی۔ یہ کام کر لیتے وہ کام کر لیتے، وغیرہ وغیرہ۔

کوئی دس بارہ سال کا وقفہ آگیا، ہماری ملاقات نہ ہوئی۔ پھر ایک دن کسی کام سے ان کے آفس جانا ہوا۔ خود نہیں تھے بلکہ پورا اسٹاف ہی بدلا نظر آیا۔ میں نے موصوف کا نام لے کر پوچھا کہ کہاں گئے، پہلے تو یہ ان کا آفس تھا؟ بتایا گیا، مرحوم ہو چکے۔ پھر تفصیل بتائی جو کچھ یوں تھی کہ کاروبار میں نقصان ہونے کی وجہ سے پیچھے ہوتے چلے گئے پھر مقروض اور نادہندہ بن کر جیل پنہچ گئے۔ چیک باؤنس کیس میں سزا ہوئی اور اُسی سزا کے دوران جیل ہی میں انتقال کر گئے، اس حال میں کہ فیملی پاکستان میں تھی، نہ کوئی عزیز قریب تھا نہ کوئی فیملی ممبر۔

یہ خبر سنتے ہی میرے سامنے دس سال قبل کا اسی کمرے کا منظر گھوم گیا جہاں گول گھومتی کرسی پر بیٹھ کر مرحوم ایک سادا اور خدا مست درویش کی مالی ابتری کا مذاق اڑا رہے تھے۔ بادشاہ کو فقیر بنتے دیر نہیں لگتی، سن رکھا تھا مگر بچشمِ خود دیکھا اس دن تھا۔

اگر کوئی چاہتا ہے کہ اسے رزق کے معاملہ میں آزمایا نہ جائے تو تین کام کرے:

اوّل: جو کچھ مل رہا ہے اسے محض مالک کی عطا سمجھے نہ کہ اپنی قابلیت کا نتیجہ اور ساتھ ہی مالک کا شکر بھی بجا لاتا رہے۔

دوئم: جن کو کم یا نپا تلا رزق مل رہا ہے انہیں حقیر نہ جانے نہ ان لوگوں سے حسدکرے جن کو “چھپر پھاڑ” رزق میسر ہے۔ یہ سب رزّاق کی اپنی تقسیم ہے۔ اس کے بھید وہی جانے۔

سوئم: جتنا ہو سکے اپنے رزق میں دوسروں کو شامل کرے۔ زیادہ ہے تو زیادہ، کم ہے تو کم شامل کرے۔ سب سے زیادہ حق، والدین اور رحم کے رشتوں کا ہے۔ نانا نانی، دادا دادی، بہنیں اور بھائی ہیں۔ اس کے بعد خون کے دوسرے رشتے ہیں جیسے خالہ، پھوپھی، چچا، ماموں، چچی وغیرہ۔ پھر دوسرے قریبی رشتہ دار یا مسکین و لاچار لوگ۔ یقین رکھیں کہ جب بہت سے دعا کے ہاتھ اس کے حق میں اٹھیں گے تو برکت موصلہ دھار بارش کی مانند برسے گی جس کی ٹھنڈی پھوار اس کی زندگی کو گلشن گلشن بنا دے گی۔

Leave a Comment

Poll

[democracy id="1"]

Share Market

Also Read This

Gold & Silver Price

today weather

Our Visitor

0 8 9 0 5 8
Users Today : 42
Users Yesterday : 423