GNS ONLINE NEWS PORTAL

آہ! مرحوم الحاج جناب چودھری غلام نبی گرداور صاحب دھنور!! رہے گی نہ قائم ارے کوئی نشانی فقط اللہ باقی مِن قُلِ فانی

Facebook
Twitter
WhatsApp
Email

سر زمین دھنور ڈہنڈیاں میں بہت برگزیدہ شخصیات نے جنم لیا۔ انہوں نے اپنے زمانے میں اپنے علاقہ اور عوام کے لیے قومی خدمات میں اہم کردار ادا کرتے ہوے اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے بتاے ہوے راستے پر قائم دائم رہتے ہوے مالک حقیقی سے جاملے۔ دھنور ڈہنڈیاں میں ایسی نامور، دانشمند، زیوقار اور کامل شخصیات کی ایک طویل فہرست ہے جو پیر پنچال کے تشخص کےلیے زاتی کردار ادا کرتے ہوے اس دنیا فانی سے ہمیشہ رہنے والی دنیا میں منتقل ہو گے۔ اللہ تعالی ان کی قبروں پر رحمت وکرم کی بارشیں برساے اور انکےدرجات بلند فرماے۔
آج جس شحصیت کو نوک قلم بنانے کی جسارت راقمالعروف کرنے کی کوشش میں ہے، میری مراد الحاج جناب چودھری غلام نبی صاحب سے ہے۔ جو کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ علاقہ موصوف میں یہ ماہر شعبہ روینیو جانے جاتے رہیں گے۔
مرحوم چودھری غلام نبی صاحب ایک سادہ طبیعت کے مالک اور پختہ عزائم رکھنے والی شخصت کے مالک تھے۔ یہ کبھی جھوٹ اپنی زبان پر نہیں لاتے تھے نہ کبھی جھوٹے کو برداشت کرتے تھے۔ یہ ہمیشہ غریب پرور اور ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنے والے مدبر انسان تھے۔ الحاج خوش الخان اور اعلی اخلاق رکھتے تھے۔ ان کی پیدائش اسی گاوں دھنور میں بیسویں صدی کے تیسرے رشک میں ہوئی۔ ان کی تعلیم اس وقت کے دور میں ہوئی جب تعلیمی سہولیات کی عدم فراہمی و وسائل کی عدم موجودگی ہوتی تھی۔ زاتی لگن و تعلیمی شوق سے آگے بڑھتے ہوے تعلیم کو اپنا زیور بنایا۔ یہاں تک کہ پوری عمر اپنا اوڑھنا اور بچھونا بنایا۔ اُس وقت اساتزہِ کرام کی بھی عدم دستیابی اور قحتالرجال ہوتا تھا۔ چودھری غلام نبی صاحب کے ساتھ میرا ان کی حیات کے آخری پندرہ سالوں کا طویل سفر رہا ہے۔ جہاں مجھے انہیں سمجھنے اور ان سے سیکھنے کا ایک بہتریں موقع نصیب ہوا۔ میں عمر میں ان سے بہت کم تھا لیکن ان کی شفقت میرے ساتھ اس قدر تھی کہ کچھ لوگ بہتریں دوست کا القاب بھی دیتے تھے۔ یہ ہر چھوٹے یا بڑے کام کے انعقاد سےقبل میرے ساتھ مشورہ ضرور کرتے۔ ناجانے ایسی کیا بات تھی کہ جو میں اپنی ناقص رائے میں ان کے سامنے پیش کرتا یہ اسے ہی مقدم سمجھتے تھے۔ ان کا سب سے بڑا ہتھیار اللہ پر یقین کامل اور مصمم ارادہ ہوتا تھا۔ کبھی حوصلہ شکنی کےالفاظ ان کے منہ سے سننے کو نہیں ملتے تھے۔ ہمیشہ مشکل وقت آنے پر بھی یہ ایک ہی جملہ کہتے تھے ُ”کوئی مشکل نی” اللہ بہتر کرے گا۔ یہ ہمیشہ ظالم اور مظلوم کےدرمیان چٹان کی طرح نظر آتے تھے۔ کہتے تھےغریب ہےغریب کی مدد کرنے میں اللہ راضی ہوتا ہے۔ چودھری غلام نبی صاحب ملازمت میں سرکاری عہدہ پر بطور پٹواری تعینات ہوے۔ جو شائد اس گاوں کے پہلے سرکاری ملازم کہلاے۔ انہوں نے ہمت، لگن اور فرض منصبی میں کوتاہی کیے بغیر دن رات محنت کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ محکمہ مال کا نام بھی پروقار طریقہ سے منظرعام پر آیا۔ کچھ لوگ اپنی تقدیر بدلنے کے لیے کسی عہدہ پر فائز ہوتے ہیں لیکن انہوں نے اپنے ساتھ اپنے محکمہ کو بھی چار چاند لگانے کی پہل کی ۔ جس کا نتیجہ ان کی دیانتداری اور دانشمندی کی بنا پر اس شعبہ میں بہت پڑھے لکھے لوگوں نے دوسری نوکریاں چھوڑ کر تعینات ہونے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے ایک تو اپنے منصب سے انصاف کیا دوسرا اپنی اولاد کو اعلی تعلیم کے زیور سے آرستہ کرنے کی ٹھان لی تھی۔ جس کے لیے یہ راجوری میں مشعل راہ بھی بنے۔ ان کے بیٹے ریاست کے ہی نہیں بلکہ ملک بھر میں مشہور و معروف طبیب جانے جاتے ہیں۔ جناب ڈاکٹر عبدالرشید چودھری نے والدین کےبہترین درس اپنی قابلیت اور زیرک کی بنا پر میڈیکل میں ڈاکٹری کےلیے اس وقت نشست اپنے نام کر لی جب ایس ٹی کے درجہ میں جموں کشمیر کے گوجر بکر اول نہیں ہوتے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے شعبہ میں ایک نمایا مقام حاصل کیا۔ یہ خطہ پیر پنچال کے پہلے اے گریڈ فزیشن کہلاے۔ ان کا ڈائگنوز کیا گیا مریض جموں، دہلی یا کشمیر میں بھی کبھی غلط نہیں پایا گیا ہے۔ انہوں نے راجوری پونچھ کی عوام کی بے پناہ خدمت سرکاری منصب سے بھی اور اپنے نیجی کلینک سے بھی زبردست طریقہ سے سرانجام دیں ہیں۔ یہ بھی ایک سادہ طبیعت و اعلی اخلاق کے مالک ہیں۔ یہ سب ان کے والدین کی گود کا درس ہے۔ کہ یہ لگاتار عوام کی خدمات سر انجام دینے کے لیے پیش پیش رہتے ہیں۔ اللہ انہیں مزید عوام کی خدمت کرنے کی سکت عطا کرے۔ کیوں کہ خطہ کے اندر اس شعبہ میں ان کا کوئی بھی ثانی دور دور تک نظر نہیں آ رہا ہے۔ ان کے دوسرے بیٹے چودھری عبدالطیف صاحب شعبہ تکنیکی سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ ایگزیکیٹیو انجینیر پی ایچ ای سے سبکدوش ہوے ہیں۔ یہ بھی عمدہ احلاق کے مالک ہیں۔ حاجی صاحب کے سرمایہ حیات میں انکی تین بیٹیاں بھی اعلی تعلیم یافتہ اور شعبہ تعلیم میں معلمہ کے بطور پر تعینات ہیں۔ حاجی صاحب کی تعلیم سے لگاو اور مصمم ارادے کےساتھ ساتھ اللہ پر بھروسہ کا نتیجہ ان کےسرمایہ حیات کی اوائل نسل کے لیے ایک مضبوط بنیاد ڈالی گئی کہ آج ان کے سرمایہ حیات میں ماشااللہ قریب ایک درجن شعبہ ڈاکٹری میں بچے باخوبی اپنی خدامات سر انجام دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ انجیرنگ میں بھی سبھی اعلی تعلیم یافتہ اور دوسرے شعبہ میں بھی فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر بلاول شفیق صاحب ان کا نواسہ ہے جس نےقومی سطع پر آئی اے ایس کا امتخان پاس کیا یہ بھی ان کے نانا نانی کا ایک خواب تھا جسے چودھری بلاول نے شرمندہ تعبیر کیا اور تاریخ رقم کی پہلے یہ ڈاکٹر اور پھر آئی اے ایس اللہ انہیں شفا عطا کرے اس وقت یہ دہلی میں زیراعلاج ہیں۔ ان کے لیے راجوری کے تمام لوگوں کی دعاوں کا نتیجہ کے یہ آج انشااللہ بہتر ہیں۔
الحاج غلام نبی صاحب بغیر کسی سیاسی عہدہ پر فائز رہنے یا پھر اعلی سرکاری منصب پر تعیناتی کہ یہ راجوری کی ہر مزہب اور ہر زات کے درمیان ایک نمایا مقام رکھتے تھے۔ لوگ انہیں بہت احترام کی نظروں سے دیکھتے تھے۔
ان کا بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی کے قیام کوعمل میں لانے کے لیے ایک قلیدی کرداد رہا ہے۔ جس جگہ یونیورسٹی قائم ہے یہ جگہ گاوں والوں کی چراگاہ تھی اس کے بٹورے کے بہت سے منصوبے بناے گئے لیکن حاجی صاحب بروقت مداخلت سے یہ زمیں ہمیشہ کھلی رہی۔ اس زمین کی نشاندہی سے لے کر یونیورسٹی کی تعمیر تک کہ ہر کام میں پیش پیش رہے ہیں۔ سب سے پہلے علاقہ ڈھنی دھار کو آنے والی سڑک کی تعمیر کا کام اپنے ہاتھوں سے کیا۔ خود اس میں گھینتی چلائی ہمراہ ماندہ لوگوں کے یہی سڑک یونیورسٹی کے دھنور قیام کا بنیادی پہلو رہی ہے۔ یونیورسٹی کےنام اپنی اور علاقہ کے لوگوں کی زمین مفت میں منتقل کر دی تاکہ اس منارہ نور کے پھلنے پھولنے میں کوئی کمی نہ رے۔ دھنور کی عیدگاہ بھی انکی ہی دین ہے جو آج علاقہ میں دینی فرائض سرانجام دینے کے لیے کام آتی ہے۔ جہاں پر پچھلے دو سال سےسیرت نبی ﷺ کانفرنس کا بھی انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اللہ تعالی اس صدقہ جاریہ کے صدقے ان کے درجات بلند فرماے۔ یہ بہت ہی پرہیزگار، متقی، صومصلات کے پابند، نمازی اور قرآن خان تھے۔ فجر میں قرآن کریم کی تلاوت ان کا روزانہ کا معمول تھا۔ ان کی اہلیہ بھی نیک سیرت اور اعلی اخلاق رکھنے والی بزرگ خاتون تھی۔ ۱۹۴۷ کےغدر میں بھی یہ سرحد کے آر پار ہوگے۔ البتہ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد یہ واپس وطن تشریف لے آے۔
چودھری غلام نبی صاحب کا سب سے بڑا پیشہ زمینداری تھا آخری دم تک یہ کھیتوں میں کام کرتے نظر آتے رہے۔ یہی عادت انہوں نے اپنی اولاد میں بھی منتقل کرنے کی ہمیشہ کوشش رکھی ہے۔ کبھی اپنی اولاد سمیت کسی پر بھوج یا کسی سے کچھ حاصل کرنے کی یا کبھی کسی کے جیب پر نظر رکھنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ اپنی جیب سے خرچ کر کہ یتیم مسکین کی مدد کرتے تھے۔ ان کے محکمہ مال کے اعلی حاکم بھی آخری دم تک مشورے کے محتاج رہتے تھے۔ ان کی زندگی کا ایک معمولی سفر سیاسی بھی رہا ہے جس میں ۲۰۰۱ کے پنچایتی انتخبات میں بطور سرپنچ پنچایت دھنور سے امیدوار کے بطور سامنے آے۔ یہ ان کی زاتی کبھی دلچسپی نہیں تھی کہ یہ سرپنچ بنیں لیکن یہاں کہ چند دوسری برادریوں جن میں مرزا، بھٹی، ہندو اور ان کے چاہنے والے دوسرے لوگوں شامل تھے انہوں نے مجبور کیا کہ آپ سرپنچ بنیں۔ یہ کوئی تیس سال کے بعد پہلا سرپنچ کا انتخاب ہونے والا تھا۔ جس میں راقم المعروف بھی بطور سرپنچ امیدوار سامنے آیا۔ حاجی صاحب میرے ساتھ چلنے کے لیے تیار تھے البتہ یہاں کے منفی سیاست کی سوچ رکھنے والے رہنماوں کو یہ گوارہ نہیں تھا کہ نئی نسل سے کوئی چہرہ اس سیاست کے میدان میں دکھائی دے۔ جس میں چودھری طالب صاحب نے حاجی صاحب کو امیدوار بنانے اور کھڑے رکھنے کے لیے زبردست کوششیں کی۔ جس دن انتخاب کے لیے فارم بھرنے میں گیا۔ اسی دن چودھری طالب صاحب نے جناب چودھری لطیف صاحب کو چند دوسرے لوگوں کے ہمراہ مجھے فتع پور گھر لانے کے لیے بھیجا۔ مجھے پنچایت گھر ڈگری کالج سے گاڑی میں بیٹھا کر فتحپور پہنچایا گیا۔ طالب صاحب اپنے باغ میں بیٹھے ہوے تھے۔ مجھے کہنے لگے لیاقت بچے آپ جیسا نوجوان کسی آفس میں ہونا چاہیے ۔ کسی نوکری میں ہونا چاہیے یہ بہت گندا کام ہے سیاست کا میں نے اس میں بال سفید کر دیے ہیں لیکن کچھ بھی حاصل نہیں ہوا ہے۔ میرا آ پ سے وعدہ ہے کہ میں انتخابات کے پندرہ دن کے بعد آپ کا سرکاری نوکری کے لیے آرڈر کر واں گا آپ حا جی صاحب ہمارے بزرگ ہیں انہیں موقع دیں ” میں نے جواب میں کہا آپ نے اس لیے مجھے یہاں بلوایا ہے حاجی صاحب میرے بھی والدین کی طرح ہیں وہ مجھے کہتے تو میں کیوں کھڑا ہوتا آپ کو کہنے کی ضرورت کیا ہے۔ لطیف صاحب وہی پر تشریف فرما تھے میں نے کہا وہ میرے بزرگ ہیں یہ بڑے بھائی ہیں میں بالکل انتخاب میں نہیں حصہ لوں گا البتہ یہ غلط ہے جو آپ مجھے یہ لالچ دے رہیں ہیں کہ میں پندرہ دن کے اندر آپ کی نوکری لگواں گا اور آپ انتخاب میں حصہ نہ لو۔ وہاں پر ان ماہر سیاست دان کے دو پہلو تھے ایک چودھری دربار صاحب جو اسی پنچایت سے امیدوار تھے سرپنچ کے لیے ان کو سیاسی فہرست سے باہر کرنا دوسرا مجھے قدوغن لگانا تاکہ ان کاراستہ ہمیشہ صاف رہے۔ جس کی یاددہانی ایک بار چودھری مسعود صاحب وائس چانسلر نے جموں اپنے گھر میں میں چودھری دربار صاحب اور طالب صاحب کی موجودگی میں کروئی طالب صاحب کہنےلگے یہ لیاقت صاحب ہیں ہمارےاب سرکاری ملازم ہیں۔ مسعود صاحب کہنے لگے میں جانتا ہوں جی مجھے پتہ ہے راجوری میں ہمارا ایک لڑکا بات کرنے والا البتہ آپ سیاسی لوگ کہاں برداشت کرتے ہیں نئی نسل کو کہ وہ کہیں دوسری لائن نہ بن جائیں۔ البتہ اس انتخبات میں ہم نے کام کیا لیکن دربار صاحب یہ سرپنچ کا انتخاب چند ووٹوں سے جیت گئے۔ اس کے بعد پنچایت بھی علحیدہ ہو گئیں۔ حاجی صاحب کی ایک مضبوط بنیاد تھی جو اس دوران ہم نے کام کیا تھااس تھوڑے سے سیاسی سفر میں اگلے انتخاب میں جب حاجی صاحب نے محمد ایوب صاحب کو بطور سرپنچ نامزد کیا اور وہ بھی جیت گئے۔ اس کےبعد جو آج دھنور کے موجودہ سرپنچ ہیں آفتاب مجید صاحب یہ حاجی صاحب کے بھائی وارڈن عبدالمجید صاحب کے بیٹے ہیں۔ یہ سب مرحوم حاجی غلام نبی صاحب کی دین ہے تو غلط نہ ہو گا۔ ان کا وصال 2013میں گاوں دھنور میں ہوا ان کی آخری آرام گاہ بھی ان کے گھر کے سامنے اپنی اہلیہ اور بڑے بیٹے محمد رفیق مرحوم کے ساتھ ہے۔ ہمیں اپنے بزرگوں کو ہمیشہ یاد کرنا چاہیے اور ان کے بتاے ہوے راستے پر قائم رہنےکی پہل کرنی چاہیے۔ اسیری کےان ایام میں مجھے اپنے گاوں کی بہت سی عظیم ہستیاں یاد آ رہی ہیں۔ شاعر، ادیب، علماء کرام صوفیہ کرام اور سیاست دان جن کی کاوشیں انشا اللہ ضرور آپ کے سامنے رکھنے کی جسارت کروں گا۔ تحریر

لیاقت علی چودھری

9419170548

Comments are closed.

Poll

[democracy id="1"]

Share Market

Also Read This

Gold & Silver Price

today weather

Our Visitor

1 5 0 8 8 2
Users Today : 65
Users Yesterday : 166