GNS ONLINE NEWS PORTAL

آہ!!! شہباز راجوروی ایک شخصیت۰ خطئہ پیرپنجال ایک ادیب سے محروم

Facebook
Twitter
WhatsApp
Email


شہباز راجوروی
اصل نام ۔۔۔غلام نبی
تخلص۔۔۔ شہباز
آبائی گاؤں۔۔۔ پوشانہ
موجودہ سکونت۔۔۔ بہروٹ راجوری
تعلیمی قابلیت۔۔۔ ماسٹرز ڈگری کے علاوہ بہت ساری اسناد
پیشہ۔۔۔ سرکاری ملازمت سے بحیثیت لیکچرار سُسبکدوش
میلان۔۔۔ علمی ادبی میدان کے شہسوار
حُلیہ۔۔۔
دراز قامت، کشادہ پیشانی، سُتواں ناک ، بارعب چہرہ مگر ہر گھڑی لبوں پر بکھرا ہوا ہلکا تبسّم،
سفید ریش،فکر کی گہرائی سے لبریز چمکدار آنکھیں، سر پر قراقُلی ٹوپی،چھریرا بدن اور اس پر ثلوار، قمیض اور واسکٹ نہایت سلیقے کے ساتھ زیبِ تن کیے ہوئے دکھائی دینے والے یہ تھے مرحوم شہباز راجوروی جِنکے انتقال پُر ملال کی افسوسناک خبر مِلتے ہی نہ صرف خِطہ پیر پنجال بلکہ ریاست اور بیرونِ ریاست میں ایک صفِ ماتم بِچھ گئی اور علمی، ادبی،دینی اور سماجی حلقوں پر گویا سکتہ طاری ہوگیا اور ہر وہ شخص جو کبھی زندگی میں ان سے کسی مناسبت سے روشناس ہوا یا مِلا تھا انکی شخصیت کا تجزیہ کرنے لگ پڑا اور اسکے دل و دماغ میں محض ایک ہی بات آتی رہی ہوگی کہ وہ شخص جِسے لوگ شہباز راجوروی کے نام سے جانتے تھے کتنے اوصاف و صِفات کا مالک تھا، اُسے، ماہرِ لِسانیات کہا جائے، ماہرِ سماجیات کہا جائے ، ماہرِ دینیات کہا جائے،ادب شناس یا سخن شناس کہا جائے اپنے وقت کا متقّی یا پرہیز گار کہا جائے یا پھر عصرِ حاضر کے تمام علوم پر دسترس رکھنے والا عالم کہا جائے گویا یہ شخص اپنے آپ میں ایک انجمن تھا جو اس دارالفنأ کو چھوڑ کر دارالبقأ کی جانب کوچ کر گیا۔
اور ان کے اس ابدی سفر کا خیال ذہن میں آتے ہی یہ شعر بے ساختہ منہ سے نِکل جاتا ہے کہ۔۔۔۔
“ایک روشن دِماغ تھا نہ رہا
شہر میں اک چِراغ تھا نہ رہا”
اللہ تعالی مرحوم شہباز راجوروی کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور پسماندگان کو صبرِ جمیل۔
اب منعقد ہونے والی ادبی ،دینی اور سماجی محفلیں سُونی سُونی لگیں گی جو کبھی ان کی پُر وقار اور عِلمی شخصیت کی موجودگی سے بھری پُری لگتی تھیں ۔
میں اپنے آپ کو خوش قِسمت سمجھتا ہوں کہ مجھے ان جیسے شفیق اُستاد کی شاگِردی کا شرف حاصِل رہا۔
میں اس تحریر کے ذریعے اپنا حق کس حد تک ادا کرسکا میں اس بات کا احاطہ نہیں کر سکتا۔
مجھے اور انجمنِ خُدامِ ادب کے دیگر اراکین کو اس بات کا فخر بھی حاصِل رہا کہ انجمن کے زیرِ اہتمام ان کے اعزاز میں گزشتہ صدی کی آخری دہائی میں ایک اعزازی محفل بھی منعقد کروائی گئی تھی جس میں عِلاقہ کے دانشوروں نے ان کے فن،شخصیت اور شاعری پر مقالے بھی پڑھے تھے اور انہیں توصیفی اسناد سے بھی نوازا گیا تھا۔
اب میں اپنے چند اشعار کے ساتھ اس تحریر کو سمیٹنے کی کوشش کروں گا اور یہ اشعار اُن تمام علمی،ادبی اور سماجی شخصیات کیلئے میری جانب سے عقیدت کے پُھول ہیں جو اب اس فانی دنیا سے کوچ کرچکے جن میں ہمارے خطہ۶ِ پیر پنجال کی عظیم شخصیت مرحوم غلام نبی شہباز بھی شامِل ہیں ۔۔
۔

سب حدوں سے گُذر گئے وہ لوگ
مِثلِ خوش بُو بِکھر گئے وہ لوگ
کل تلک محفلوں کی جان تھے جو
اب نا جانے کِدھر گئے وہ لوگ
دھڑکنوں میں سُنائی دیتے ہیں
دِل میں جیسے اُتر گئے وہ لوگ
یہ جہاں عارضی ٹھکانہ تھا
مستقِل اپنے گھر گئے وہ لوگ
اب بھی ز ندہ ہیں سب کی یادوں میں
کون کہتا ہے مر گئے وہ لوگ۔۔۔۔


خراجِ عقیدت
مِنجانب:- “میر خورشید جانم”

Comments are closed.

Poll

[democracy id="1"]

Share Market

Also Read This

Gold & Silver Price

today weather

Our Visitor

1 5 0 9 4 1
Users Today : 124
Users Yesterday : 166